مظفرنگر فسادات کے 6 سال مکمل، انصاف کی تمام اُمیدوں نے دم توڑ دیا

آس محمد کیف

مظفرنگر فسادات کے 6 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ یہاں کے کوال گاؤں میں فرقہ وارانہ جھگڑے میں تین لوگوں کا قتل اور اس کے بعد منعقد ہونے والی مہاپنچایت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بھڑکے تشدد کی آگ میں ارد گرد کے علاقے بھی جھلس گئے تھے۔ مظفر نگر میں چار ہفتوں تک کرفیو نافذ رہا اور فوج کو تعینات کرنے کے بعد ہی حالات قابو میں آ سکے۔ اس خونیں فساد میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 65 افراد ہلاک اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ جبکہ ہزاروں لوگوں کو اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ فسادات کے بعد علاقہ میں بہت کچھ تبدیل ہو گیا۔ مغربی اتر پردیش کا جاٹ-مسلم اتحاد درہم برہم ہو گیا اور اس کی وجہ سے چودھری اجیت سنگھ کی جماعت آر ایل ڈی (راشٹریہ لوک دل) کو وہ نقصان پہنچا کہ وہ آج تک اپنا کھویا ہوا وجود حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ وہیں، کچھ سیاسی رہنماؤں نے ان فسادات سے فائدہ بھی اٹھایا اور کامیابی کا زینہ چڑھتے چلے گئے۔

چھ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود علاقہ کے وہ متاثرہ لوگ جنہوں نے جانی اور مالی نقصان برداشت کیا اور آج تک اس درد کو محسوس کر رہے ہیں، انصاف پانے میں ناکام ہیں اور اب تو ان کی تمام امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔

سلیم کی عمر 66 برس ہے اور ان کے بھائی نسیم بھی 70 ویں سال میں داخل ہو چکے ہیں۔ سلیم ابھی تک صدمہ میں ہیں، لوگوں سے زیادہ بات نہیں کرتے اور بات بات میں زار و قطار رونا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے بھائی نسیم اپنا ذہنی توازن ہی کھو چکے ہیں۔ یہ دونوں بھائی فساد کی شروعات جس کوال گاؤں سے ہوئی تھی وہیں کے رہائشی ہیں۔

سلیم اس نوجوان شاہنواز کے والد ہیں جو کوال میں ہونے والے تنازعہ کا سب سے پہلے شکار بنا تھا۔ شاہنواز کو معمولی تنازعہ کے بعد مبینہ طور پر گورو اور سچن نے قتل کیا تھا، بعد میں گورو اور سچن کا بھی موقع پر ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ ادھر نسیم ان دو نوجوانوں کے والد ہیں جنہیں گورو اور سچن کے قتل کے بعد نامزد کیا گیا تھا۔ نسیم اور سلیم دونوں بھائی بری طرح ٹوٹ چکے ہیں۔ دونوں کے چار بیٹے عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

مظفرنگر فساد کے ٖحوالہ سے رواں سال کئی اہم فیصلہ سنائے گئے ہیں، جن میں سے ایک گورو اور سچن کے قتل سے وابستہ ہے۔ اس معاملہ میں مقتول شاہنواز کے چار بھائیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ تمام ملزمان فساد کے بعد سے ہی جیل میں بند ہیں اور ان کی درخواست ضمانت منظور نہیں ہو سکی ہے۔ ادھر، شاہنواز کے قتل معاملہ میں نامزد ملزمان کو پولس کلین چٹ دے چکی ہے۔ عدالت میں طویل جد و جہد کے بعد ملزمان کو پیشی پر ضرور بلایا گیا لیکن ایک مہینے سے بھی کم وقت میں وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ گورو کے والد نے بھی حال ہی میں عدالت میں خود سپردگی کی تھی لیکن وہ بھی ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔

شاہنواز کے والد سلیم نے کہا، ’’میں نے زندگی میں کبھی انتنی ناانصافی نہیں دیکھی۔ میرے بیٹے کا قتل ہوا۔ جو قتل کرنے آئے تھے انہیں بھیڑ نے مار دیا۔ میرا ایک بیٹا چینئی میں تھا اور بلارشاہ سے واپس آیا تھا۔ پولس نے ابتدا ہی سے انہیں مجرم بنا دیا اور اب انہیں سزا ہو گئی۔ ہماری کہیں نہیں سنی گئی۔ میں نے عدالت میں پانچ سال مقدمہ درج کرانے کی لڑائی لڑی اور میرے بیٹے کے قاتلوں کو 15 دن میں ہی ضمانت مل گئی۔

ایسا محض کوال ہی میں نہیں پیش آیا بلکہ فسادات کے تمام ملزمان الزمات سے بری ہو رہے ہیں۔ ایڈوکیٹ لئیق کہتے ہیں، اب تو بس یہ خدشہ باقی رہ گیا ہے کہ ملزمان متاثرین کے خلاف ہی کہیں ہتک عزت کا مقدمہ قائم نہ کرا دیں!

مظفر نگر کے قدوائی نگر محلہ کے ایک ریٹائرڈ ٹیچر نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ ہندو پرست رہنماؤں نے ملزمان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کا کچھ بھی نہیں بگڑ پائے گا۔ رہنماؤں نے وعدے کو پورا بھی کیا ہے اور جو مقدمات پولس نے اپنی طرف سے درج کیے تھے انہیں واپس لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مقدمات جو متاثرین کی جانب سے درج کرائے گئے تھے ان میں ملزمان کو ثبوتوں کی عدم موجودگی کے سبب شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے باعزت بری کیا جا رہا ہے۔

کانگریس کی خاتون ضلع سربراہ بلقیس چودھری کا کہنا ہے کہ جب متاثرین کمزور ہوں تو حکومت کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پولس نے زیادہ تر معاملات میں آلہ قتل تک برآمد نہیں کیا اور تمام معاملات گواہی پر منحصر رہے۔ جبکہ کئی معاملات میں گواہوں کو بھی زد و کوب کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔

بلقیس نے کہا، ’’آپ ثبوتوں اور پولس کی تفتیش سے علیحدہ ہو کر غور کیجیے۔ پولس ایک مخصوص طبقہ کے حق میں کھلِ عام کھڑی نظر آئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ پولس کا غیر جانبدار ہونا تو بہت مشکل تھا ایسے میں سیاسی رہنما آخر کیا کر رہے تھے!‘‘

جمعیۃ علما ہند کے سکریٹری مولانا موسیٰ قاسمی کا خیال ہے کہ مسئلہ پیروی کا ہے۔ قتل کے 69 ملزمان میں سے 45 کے نام تو اہم فرد جرم میں شامل بھی نہیں کیے گئے تھے، محض 24 کے خلاف ہی مقدمہ چلا۔ ان میں بھی گواہ اپنے بیان سے پھر گئے۔ اصل بات یہ ہے کہ متاثرین کمزور اور غریب لوگ ہیں اور اب ان کی ہمت جواب دے چکی ہے۔‘‘

مظفرنگر فساد کے مقدمات میں ہونے والے مفاہمتی فیصلوں میں مسلم طبقہ سے وابستہ رسوخ دار لوگوں کا بھی اہم کردار ہے، ان میں کچھ ملی رہنما بھی شامل ہیں۔ صرف متاثرین کے خاندان کو گواہی نہ دینے کے لئے قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کئی معاملات میں متاثرین پر انہیں کے طبقہ کے لوگوں نے دباؤ بنایا، انہیں لالچ دیا پھر برغلایا۔ یہ تمام رسوخ دار لوگ ایک خاص سیاسی جماعت سے وابستہ تھے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

30ستمبر2019(فکروخبر)

«
»

عدم مساوات کی بڑھتی خلیج کو کیسے پاٹاجائے؟

ماہ محرم الحرام فضیلت و اہمیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے