خدا کی قدرت ،جو سب سے طاقت و ر تھا وہ سب سے کمزور بن گیا

  ابونصر فاروق

    ’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا :جب اللہ نے زمین بنائی تووہ جھکنے اورہلنے لگی۔تب اللہ تعالیٰ نے اُس میں پہاڑ کی میخیں ٹھونک دیں تووہ برابر ہوگئی اور ایک حالت پر قرار پا گئی۔پہاڑوں کی اس طاقت پر فرشتوں کو تعجب ہو اتو اُنہوں نے پوچھا،اے اللہ! کیا تو نے پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز بنائی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہاں، وہ لوہا ہے جو پہاڑ سے بھی زیادہ سخت ہے۔اُنہوںنے پھر پوچھا،اے اللہ! کیا تو نے لوہے سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز بنائی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہاں ،وہ آگ ہے، جو لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔اُنہوںنے پھر پوچھا،اے اللہ! کیا تو نے آگ سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز بنائی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہاں ،وہ پانی ہے، جو آگ سے بھی زیادہ طاقتورہے۔اُنہوںنے پھر پوچھا،اے اللہ! کیا پانی سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہاں ،وہ ہوا ہے، جو پانی سے بھی زیادہ طاقتورہے۔اُنہوںنے پھر پوچھا،اے اللہ! کیا ہوا سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہاں، وہ آدم کا بیٹا ہے جو اُس سے بھی زیادہ طاقتورہے، بشرطیکہ وہ اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔‘‘(ترمذی،مسند احمد) 
    لوہا پتھر کو کاٹتا ہے،آگ لوہے کو گلا دیتی ہے،پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، ہوا پانی کو اڑا کر لے جاتی ہے اور انسان ان سبھوں کو اپنا غلام بنا کر ان سے کام لیتا ہے۔اس فرمان رسولﷺ کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ اللہ کی کائنات میں انسان سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ خلیفہ یعنی سردار، حاکم،امام اور کسی حد تک مالک۔
    انسان جسمانی طور پر حیوانوں سے بھی کمزور ہے۔وہ معمولی سے کیڑے مچھر اور مکھی کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ مچھر اُسے کاٹ کر بیمار کر دیتا ہے اور مکھی اُس کے کھانے کو زہریلا بنا کر اُس کی طاقت کو کمزور کر دیتی ہے۔غور کرنے کی بات ہے کہ انسان کے پاس وہ کون سی چیز ہے جس کی بدولت وہ اتنا کمزور ہوتے ہوئے بھی پوری کائنات کا عارضی حاکم بنایا گیا ہے اور پوری کائنات اُس کے قبضے میں دی گئی ہے  ؟  انسان جسمانی طورپر کمزور ہے لیکن اُس کا دماغ ایک ایسی چیز ہے جو کسی مخلوق کے پاس نہیں ہے۔انسان کی اصل طاقت اُس کا دماغ ہے۔جس انسان کا دماغ تیز، طاقت ور،غور و فکر کرنے والا، سوچنے اور سمجھنے والا، دور تک دیکھنے والااور ہر کام کے انجام پر نظر رکھنے والا ہوتا ہے وہی دنیا میں ایسے ایسے کام کرتا ہے جو تاریخ بن جاتی ہے اور ایسا انسان مر کے بھی اپنے کاموں کی بدولت زندہ رہتا ہے۔
    ایسے انسان کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ دماغ کی طاقت اور تیزی کے ساتھ وہ خواہشات اور جذبات کا غلام نہیں ہوتا ہے۔وہ اتنا خود دار اور باوقار ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا اُس کو اپنا غلام بناہی نہیں سکتا ہے۔ایسا انسان اپنی باتیں اوردلیلوں کی روشنی میں دوسروں کو قائل اور معقول کر دیتا ہے اور اُن کو اپنا ہم نوا بنا کر ایک جماعت تیار کر لیتا ہے اور اُس ایک انسان کی طاقت ایک ہزار انسانوں کے برابر ہو جاتی ہے۔لیکن یہی انسان حیوانوں اور جانوروں کی طرح جب ضرورت سے زیادہ جذبات، نامناسب خواہشات، عیش و عشرت اور شوق جیسی چیزوں کا غلام بن جاتا ہے تو اس کی عقل خبط ہو جاتی ہے اور پھر اپنی نادانی میںیہ ایسی ایسی حماقتیں کرتا ہے کہ عقل و دانش والے اس پر حیرت کرتے ہیں کہ یہ انسان ہو کر جانوروں جیسی حرکتیں کیوں کر رہا ہے۔
    دنیا میں قومیں جب عزم و ارادے کے ساتھ میدان میں آگے بڑھتی ہیں تو کامیابی اور ناموری کے جھنڈے گاڑتی چلی جاتی ہیں اور دوسری قوموں پر فتح یاب ہوتی ہیں، لیکن وہی قوم ترقی کی اونچائی پر پہنچنے کے بعد جب بیجا خواہشات ، عیش و آرام اورسہولت و آسانی کی عادی بن جاتی ہے تو اُس کی ساری صلاحیت پر پانی پھر جاتا ہے اور پھر دوسری محکوم قوم اُنہیں خوبیوں کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور پہلی حاکم قوم کو اپنا غلام بنا لیتی ہے۔دنیا کی لکھی ہوئی تاریخ اس کی شہادت دیتی رہی ہے۔عروج سے زوال کا یہ سفر اُس وقت شروع ہوتا ہے جب قوم کے لوگ اپنی حیثیت کو بھول جاتے ہیں۔اُن کی عادتیں اور حرکتیں گمراہ ہو جاتی ہیں اور وہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔
    دنیا میں قرآن ایک ایسی آسمانی کتاب ہے جو اپنے پڑھنے والے کو اُس کا اصلی ، سچا اور صحیح مقام بتاتی ہے اور دنیا کو اپنے بس میں کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔قرآن اپنے پڑھنے والوں کو غور و فکر،تلاش و تجسس اورقدرت کے چھپے ہوئے راز جاننے کی دعوت دیتا ہے۔چنانچہ حضرت محمد ﷺ نے جن پرقرآن نازل ہوا تھا اکیلے جد و جہد شروع کی اور پہلے عرب پر پھر قریبی ملکوں پر اورپھر ساری دنیا پر اپنی حکومت قائم کر لی جو دراصل اللہ کی حکومت تھی۔وہ اپنی زندگی پوری کر کے دنیا سے چلے گئے لیکن اُن کے ماننے والے اور اُن کی سچی پیروی کرنے والے ساری دنیا میں آج تک پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے افکارونظریات کو جو دراصل اللہ کا دین حق اسلام ہے قائم اور نافذ کرنے کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔پیارے نبیﷺ کے ماننے والوں نے آگے چل کر گمراہی کا راستہ اپنایا اور شیطان جس سے اُن کو مقابلہ کرنا تھا اُس کی غلامی قبول کرتے چلے گئے،پھر بھی وہ اتنے طاقتور تھے کہ پورا یورپ اُن پر فتح نہیں پا سکا۔ چنگیز خاں جودنیا کو فتح کرنے نکلا تھا بغداد کی انتہائی کمزور مسلم حکومت پر حملہ کرنے کی اُس کی ہمت نہیں تھی۔
    مسلمانوں کی دین اسلام سے دوری اور غفلت ، قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی جگہ اُس کو وظیفے کی کتاب بنا کر ثواب کمانے کی عادت نے اُن کو بوسیدہ لکڑی کی طرح بیجان بنا دیا اور آج وہ ساری دنیا میں ذلت، رسوائی ، حقارت اور غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔وہ آج دنیا کے سب سے دولت مند لوگ ہیں۔اُن کے پاس تیل کی دولت ہے جس کی ساری دنیا محتاج ہے، لیکن اُن کی بدعقلی کے سبب وہ انتہائی دولت مند ہونے کے باوجود دنیا کے انتہائی گھٹیا اور شیطان صفت قوموں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔
    ضرورت سے زیادہ مال و دولت عام طور پر حلال کمائی سے کم اور حرام طریقوں سے زیادہ آتی ہے۔مال کی کثرت انسان کو کدھر لے جاتی ہے اس کا اندازہ اس وقت اپنے ملک کے حالات سے کیجئے۔حاکم کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ملک اور قوم کی خوش حالی، امن و سلامتی اور ہر طرح کی ترقی کے منصوبے بنائے او ر ملک و قوم کی ترقی کی کوشش کرے۔لیکن سوشل میڈیا کی رپورٹنگ کے مطابق موجودہ حکومت دولت اور حکومت کاغلط استعمال کر کے ملک و قوم کاجینا حرام کئے ہوئے ہے ۔
    یہ مال و دولت جس کے اس دور کے مسلمان حد سے زیادہ لالچی اور خواہش مند بنے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو حد سے زیادہ کب اور کس لئے دیتا ہے اس کی حقیقت کو پیارے نبیﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں سمجھئے:
        حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے اُنہوں نے نبیﷺ کو فرماتے سناکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے تین آدمیوں(کوڑھی، گنجے اور اندھے)کو آزمانے کا ارادہ کیا اور انسانی صورت میں ایک فرشتے کواُن کی طرف بھیجا۔وہ فرشتہ سب سے پہلے کوڑھی کے پا س پہنچا اور پوچھا کون سی چیز تمہیں سب سے زیادہ پسند ہے  ؟  وہ بولا اس بیمار جسم جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے کراہت اور گھن محسوس کرتے ہیں، ختم ہو جائے اور اچھی رنگت مل جائے۔فرشتے نے اُس کے جسم پر اپنے ہاتھ سے مسح کیا تو اُس کا مرض ختم ہو گیا اور اُسے اچھی جلد اور خوبصورتی مل گئی۔پھر فرشتے نے پوچھا تمہیں کس قسم کی دولت سب سے زیادہ عزیز ہے  ؟  اُس نے اونٹ کا نام لیا۔اللہ تعالیٰ نے اُسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی عطا کی۔ فرشتے نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں برکت عطا کرے اور چلا گیا۔
    پھر فرشتہ سب سے گنجے کے پا س گیا اوراُس سے کہا، تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے  ؟  فرشتے نے اُس کے سر پر مسح کیا تواللہ تعالیٰ نے اُسے خوبصورت بال عطا کر دیے اور گنجاپن جاتا رہا۔پھر فرشتے نے اُس سے پوچھا توکس قسم کی دولت چاہتا ہے  ؟  اُس نے جواب دیا گائے۔اللہ تعالیٰ نے اُسے ایک حاملہ گائے عطا کی۔ فرشتے نے کہااللہ تعالیٰ تیرے لئے اس میں برکت عطا کرے گا۔
    پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا کون سی چیز تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے  ؟  اُس نے کہا  کہ میری سب سے بڑی آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ بینائی عطا کردے اور میں اپنی آنکھوں سے دنیا کی تمام چیزوں کو دیکھ سکوں۔ فرشتے نے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو اُس کی بینائی واپس آ گئی اور وہ دیکھنے لگا۔فرشتے نے سوال کیا تمیں کون سا مال سب سے زیادہ محبوب ہے  ؟  اُس نے کہا بکری۔اللہ تعالیٰ نے اُسے ایک حاملہ بکری عطا کی۔
    کچھ زمانہ گزرا ، اللہ تعالیٰ نے اُن کے مویشیوں میں بہت برکت دی ، یہاں تک کہ ایک اونٹوں کے ریوڑ کا، دوسرا گایوں کے اور تیسرا بکریوں کے ریوڑ کا مالک بن گیا۔
    پھر اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کا امتحان لینا چاہا، چنانچہ وہی فرشتہ ایک مسافر کی شکل میں کوڑھ والے کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں ایک مسکین اور ضرورت مند آدمی ہوں ، راستہ کی مشکلات میں گھر گیا ہوں، تمام وسائل اور ذرائع ختم ہو گئے ہیں، اب میرا گزارا نہیں ہو سکتا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کرم نوازی عطا فرمائے، آپ مجھ سے تعاون کریں ،میں اُس خدا کے نام سے جس نے آپ کو خوبصورت جلد دی ہے اورمال عطا فرمایا ہے صرف ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں تاکہ میں سفر میں اُس سے اپنا گزارا کر سکوں۔اُس(کوڑھی) نے جواب دیا لوگوں کے حقوق مجھ پر بہت ہیںاس لئے میں آپ کو کچھ بھی نہیں دے سکتا ہوں۔فرشتے نے کہا مجھے خیال آتا ہے کہ میں نے تمہیں پہلے بھی دیکھا ہے۔کیا ایسا نہیں ہے کہ پہلے تم کوڑھی تھے، لوگ تم سے نفرت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے شفا عطا کی اور تم فقیر تھے اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت عطا کی۔ جب واقعہ یہ ہے تو تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اُس نے جواب دیا تم غلط کہتے ہو یہ دولت مجھے میرے باپ دادا سے ملی ہے۔فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے تیری پہلی حالت میں لوٹا دے جس میں تم پہلے پڑے ہوئے تھے۔
    پھر وہ گنجے کے پاس گیااور اُس سے بھی یہی درخواست کی۔ اُس کا جواب بھی کوڑھ(کے مرض )والے کے جواب سے مختلف نہیں تھا۔ فرشتے نے اُسے بھی بد دعا دی اور چلا گیا۔آخر میں وہ مفلس کی صورت اختیار کر کے سابق اندھے کے پاس گیا اور کہا میں ایک غریب مسافر ہوں، اس سفر میں میرے رزق کے سارے وسائل ختم ہو چکے ہیں، اب میری ناداری کا یہ حال ہے کہ میں اپنا گزارا نہیں کر سکتا مگر اللہ کی مہربانی سے اور آپ کی عنایت سے سوال کرتا ہوں۔اُس نے جواب دیا، بیشک اللہ نے مجھے بینائی عطا کی اور مال و دولت سے نوازا۔ بکریوں کا یہ ریوڑ موجود ہے، تمہیں جتنی بکریوں کی ضرورت ہو اس میں سے لے لو، میری طرف سے پوری اجازت ہے۔فرشتے نے کہا، مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ہے، اللہ نے دراصل اس طرح تم لوگوں کو آزمایا تھا۔ تم اس آزمائش میں پورے اترے۔ تمہیں بارگاہ خداوندی میں پسند کیا گیا اور تمہارے دونوں ساتھی ناکام ہوئے اور اللہ کے غضب کو دعوت دے دی۔کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ظاہر ہوا۔ اونٹوں اور گایوں میںمرض پھوٹ پڑا ۔ پہلے دونوں آدمی ساری جائیدادا سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پھر وہ بیماری بھی اُن پر مسلط ہو گئی جو فرشتے کے مسح کرنے سے دور ہو گئی تھی۔(بخاری، مسلم)
    مال و دولت انسان اپنی عقل مندی اور کوشش و تدبیر سے نہیں کماتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جب انسان کو آزمانا چاہتا ہے کہ وہ جنت کا مسافر بنتا ہے یا جہنم کا راہی تب اُس کوضرورت سے زیادہ مال و دولت کا مالک بنا دیتا ہے۔ضرورت سے زیادہ دولت کا مالک بننے کے بعد انسان کو کیسا بننا چاہئے اس کو بھی اس حدیث رسولﷺ میں پڑھئے:
    حضرت ابوذر غفاری ؓ روایت کرتے ہیں،میں رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس وقت آپ ﷺکعبہ کے سایے میں بیٹھے تھے۔ جب آپﷺ کی نظر مجھ پر پڑی، آپﷺ نے فرمایا: وہ لوگ مکمل طور پر تباہ و برباد ہونے والے ہیں۔ میں نے دریافت کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان، کون لوگ تباہ و برباد ہونے والے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ لوگ تباہ و برباد ہوں گے جو مالدار ہونے کے باوجود خداکی راہ میں مال خرچ نہیں کرتے۔کامیاب و کامراں صرف وہ ہوگا جو اپنی دولت لٹائے،سامنے والوں کو دے، جو پیچھے ہیں اُن کو دے اور بائیں طرف کے لوگوں کو دے اورایسے مالدار بہت ہی کم ہیں۔ (بخاری ، مسلم)
    اس وقت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد حد سے زیادہ دولت مند بن گئی ہے، لیکن اُس کی اس دولت مندی      نے اُس سے شرافت، انسانیت،محبت، ہمدردی، خدمت کے جذبات، رشتوںکی پاسداری اور انسانوں کی خیر خواہی جیسے پاکیزہ اور نیک جذبات سے محروم کر دیا ہے۔وہ انتہائی خود غرض، مطلبی، بد عہد، جھوٹا ، بے مروت اور بے وفا بن گیا ہے۔ اُس کی ذات سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ نقصان ہی پہنچ رہا ہے۔یہ مسلمان اللہ کی نگاہ میں بھی ناپسندیدہ ہیں، دنیا والے بھی ان سے نفرت کرتے ہیں اور پوری کائنات ان کے خلاف ہے۔ایسے حالات میں یہ اللہ کی زمین پر کیسے زندہ رہ پائیںگے  ؟  ان کے ان گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ کیسے انہیں دے رہا ہے آئے دن اس کے مظاہرے سامنے آتے رہتے ہیں مگر بے حس اورجانوروں جیسی زندگی گزارنے والے انسانوں کو سمجھ ہی میں نہیں آ رہا ہے۔جس گروہ کو مسلمانوں کو ہدایت اور سیدھی راہ دکھانی تھی وہ اصلی اور صحیح بات بتانے کی جگہ صرف دعا مانگنے کی تاکید اور تلقین کررہا ہے۔سب جانتے ہیں کہ گنہگار کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔مسلمان گناہوں سے بچنا نہیں چاہتے ہیں مگر دعا کرکے نجات پانا چاہتے ہیں۔ایسا نہیں ہوتا ہے، نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ یاد رکھئے مال کا لالچی انسان مومن اور مسلم بن ہی نہیں سکتا ہے۔
    کاش !  میرے اس مضمون کو پڑھنے والے زندگی کی حقیقت کو سمجھیں اور مومن ومسلم ہونے کی حیثیت سے اپنے مقام او ر اپنی ذمہ داریوں کوسمجھتے ہوئے، شریعت اسلامی کے پابند ہو کراللہ کی رحمت، مغفرت، برکت اور حفاظت کے حقدار بنیں، غیر مسلموں کی نقل کرنے کی جگہ صحابہ کرام اور اسلاف کی پیروی کریں۔اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے اصحاب مجھے کال کر کے بات کر سکتے ہیں۔

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
 

«
»

اب انھیں ڈھونڈ چراغ ِرخِ زیبا لے کر

نماز کے احکام کو قرآنی آ یات کی روشنی میں سمجھئے اور ان کا حق ادا کیجئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے