کاٹھیاواڑ کے ساحل پر(4)

سفرنامۂ گجرات: مشاہدات وتاثرات (4)

محمد سمعان خلیفہ ندوی۔ استاد جامعہ اسلامیہ، بھٹکل

دوسرے دن مانگرول کا پروگرام بنا۔ یہ تقریباً یہاں سے چالیس کیلو میٹر کے فاصلے پر ضلع جوناگڑھ کا ایک قدیم تاریخی شہر ہے۔ کئی ایک تاریخی مساجد اور مقابر بھی ہیں۔ شہر پر قدامت کے آثار نمایاں ہیں، جامع مسجد کا وسیع صحن اور خود اس کی قدیم اور پُر شکوہ عمارت سیاح کے لیے بڑی دل چسپی کا باعث ہے، مگر ویڈیو اور فوٹو گرافی کی ممانعت کی ہدایات پر مشتمل دیواروں پر آویزاں بورڈ بین السطور میں جو کچھ اشارے دے رہے تھے، اس سے بڑے خدشات محسوس ہوئے، اللہ کرے یہ خدشات ہی رہیں۔ شاید محکمہ آثار قدیمہ اس کی نگرانی کررہا ہو۔

یہاں دوپہر کا کھانا جامعہ ریاض الصالحات میں مقرر تھا، تھوڑی دیر آرام کرکے کھانے سے فارغ ہوئے۔ اس کے ذمے دار مولانا ابراہیم صاحب اُدیا نے بڑی خاطر کی۔ کہکشاں کے ساتھیوں کا پروگرام دوسرے دن راجکوٹ پہنچ کر ٹرین پکڑنے کا تھا مگر اچانک پروگرام میں تبدیلی ہوئی اور بھاؤ نگر پہنچ کر کروز سے سورت اور پھر بذریعہ ٹرین سورت سے بھٹکل کا سفر طے پایا۔ اس لیے ان حضرات نے اسی ترتیب پر عمل کیا اور ہم لوگوں کے لیے مستقبل کی امید میں یہ خواب خواب ہی رہا۔

وہاں سے واپسی میں بعض باغات اور فارم ہاؤس کی سیر کرتے ہوئے ویراول لوٹے تو وہاں کے ایک عالی شان ہوٹل میں مولانا احمد سورٹھیا کی طرف سے ایک پرتکلف عشائیہ سے محظوظ ہوئے جو گجرات کے روایتی کھانوں کے لیے مشہور ہے۔

اگلے روز صبح ناشتے پر مولانا اعجاز قاسمی نے مدعو کیا تھا اور اسی کے ساتھ خواتین کا اجتماع بھی انھوں نے رکھا تھا۔ وہ خود تو جامعہ میں مدرس ہیں مگر ان کی اہلیہ حافظ قرآن ہیں اور اپنے مکان ہی پر بچیوں کو دینی تعلیم سکھاتی ہیں۔ نئی نسل کی دینی تربیت کے موضوع پر اور ادارہ ادب اطفال کے مشن اور اس کے تعارف کے حوالے سے تقریبا ایک گھنٹہ گفتگو کا موقع ملا، ہم چھٹی منزل پر محترم یونس صاحب کے یہاں بیٹھے ہوئے تھے اور وہیں سے گفتگو جاری تھی اور پانچویں منزل پر خواتین ہمہ تن گوش ہو کر سن رہی تھیں، کہکشاں کے نام سے یہاں کے لوگ بفضل خدا واقف ہیں مگر ہم لوگوں کی اس سے وابستگی کے متعلق انھیں اندازہ نہیں تھا، اس لیے آج ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔

یہاں اوپر سے شہر کا منظر بڑا دل فریب لگ رہا تھا، ایک طرف بلند وبالا عمارتیں جدیدیت کی علم بردار بن کر ایستادہ تھیں تو دوسری طرف قدیم بستی کے مکانات قدامت کے دل دادہ تھے، جن کی پیٹھ پر بحر عرب موج زن اور اس کے ساحل پر تا حد نگاہ کشتیاں اور جہاز لنگر انداز۔ معلوم ہوا کہ یہاں مچھلی اور اس سے متعلق بہت ساری چیزوں کی تجارت ہوتی ہے اور اس میں بھی ہندستان کے جنوبی ساحل پر آباد مالابار کے باسیوں کا حصہ کچھ زیادہ ہی ہے۔

ناشتے سے فارغ ہوکر ایک شاپنگ مال کی زیارت کی گئی اور پھر قیام گاہ واپسی ہوئی۔ سامان سمیٹ کر ہمیں اب مولانا احمد سورٹھیا کے مکان پر چلنا تھا اور وہیں دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونا تھا۔ آج کوئی زیادہ مشغولیت نہیں تھی، ناشتے پر ایک پروگرام ہوا، پھر شام کو طلبہ کے درمیان کچھ گفتگو کرنی تھی، اس لیے مغرب بعد مدرسے حاضری ہوئی، طلبہ پہلے سے منتظر تھے، آیت کریمہ کی روشنی میں “تفقہ في الدین” اور “إنذار قوم” اور اس سے متعلق باتیں کچھ اس انداز سے دل میں آتی گئیں اور زبان اس کی ترجمانی کرتی رہی کہ وقت کا پتہ ہی نہ چل سکا اور گھنٹہ گزر گیا۔ پتہ نہیں جوش جنوں میں کیا کچھ بک گیا، مگر یہ دراصل بڑوں سے سنی ہوئی باتیں تھیں جنھیں اپنے الفاظ میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔

ادھر انتظار کھانے پر طویل ہوتا گیا.. جو وہاں کے ایک مشہور اور مخیر تاجر اور مسجد کے ٹرسٹی جناب شہزاد ساگر کے یہاں طے تھا۔ الغرض وہاں پہنچ کر کھانا تناول کیا گیا۔ گجرات کی عام روایت کے برخلاف یہاں جتنے دن رہے میزبانوں نے مہمانوں کی رعایت میں بھی اور خود اپنے ذوق کا ثبوت دیتے ہوئے بھی سمندر کی تازہ مچھلی سے ضیافت کی، جس کی لذت کا اندازہ ساحل پر آباد شخص ہی کو ہوسکتا ہے۔

اگلے دن علی الصباح مولانا احمد سورٹھیا اور ان کے اہل خانہ نیز مولانا طلحہ پیرانی کی محبتوں اور ضیافتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم ویراول سے راجکوٹ کے لیے روانہ ہوئے اور تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت کے بعد راجکوٹ کے HSR ایئرپورٹ پہنچے جہاں سے ڈیڑھ بجے ہمیں بذریعہ جہاز گوا کے نئے ایئرپورٹ موپا کے لیے روانہ ہونا تھا۔ جہاز وقت مقرر پر روانہ ہوا اور سوا گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم گوا کے موپا ایئرپورٹ پر اترے۔ مگر وہاں سے بھٹکل کا سفر چوں کہ دن کا تھا اس لیے بہت زیادہ طویل اور دشوار بھی محسوس ہوا، اس سے پہلے جو سفر ہوا تھا وہ رات کا تھا اور جلدی سے کٹ گیا تھا اس لیے موپا سے بھٹکل تک کی مسافت کا اندازہ لگانے میں دقت ہوئی اور اس کا خمیازہ اس بار بھگتنا پڑا، مگر شاید ڈابولم کے بجائے آئندہ اسی ایئرپورٹ سے زیادہ واسطہ پڑے، لیکن تب تک سڑکیں اور پل وغیرہ اچھے بن جائیں تو زیادہ دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بہرحال اس طرح رات ساڑھے دس بجے اپنے وطن عزیز پہنچنا نصیب ہوا۔ اس بار کا سفر اس اعتبار سے دل چسپ تھا کہ گجرات کا جنوب مغربی خطہ ہم مسافروں کی جولاں گاہ بنا، پھر بھی سفر چوں کہ بچوں کے ساتھ تھا اس لیے بہت سے مقاماتِ آہ وفغاں کہیے یا منزل ہائے کہکشاں ابھی زیرِ قدم آنے سے رہ گئے جہاں کے لیے محوِ پرواز کسی اور وقت ہوتے ہیں۔ یار زندہ صحبت باقی۔

(۱۸ اکتوبر)

 

کاٹھیاواڑ کے ساحل پر3)

کاٹھیاواڑ کے ساحل پر  2

 1 کاٹھیاواڑ کے ساحل پر

«
»

موت کے بعد آنسو

تاریخِ مسجدِ اقصی ٰ اور اہل فلسطین پر یہود کا ظلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے