ٹی وی چینلس کو عدالت عظمیٰ کی پھٹکار،کیا حکومت لگام لگائے گی؟

نفرت آج کی سیاست کا ایجنڈا ہے،پھر ٹی وی چینلس کا قصور کیا ہے؟

  عبدالغفار صدیقی

فطرت نے انسان کے اندر انس و مودت کا جذبہ رکھا ہے۔نفرت انسانی فطرت کے خلاف ایک مذموم جذبہ ہے۔انسان عام طور پر محبت کا خوگراورالفت کا پیکر ہے۔نفرت کا جذبہ اس کے اندر باہر سے ٹھونسا جاتا ہے۔جب کسی شخص، قوم یا ملک کے خلاف مستقل باتیں کی جائیں،اس کو خطرناک اورضرررساں ثابت کیا جائے تو پھر حسد،تعصب،بغض،عناد اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔اسی ہفتہ مراد آباد کے ایک تاجر کو پدماوت ایکسپریس میں زدو کوب کیا گیا،ننگا کرکے بیلٹوں سے مارا گیا،بے ہوشی کی حالت میں ٹرین سے پھینک دیا گیا۔صرف اس بات پر کہ اس نے جے شری رام کا نعرہ نہیں لگایا،وہ مسلمان تھا،اس کے داڑھی تھی اور اس نے ٹوپی پہن رکھی تھی۔رام کے سیوک اور رام کے عقیدت مندوں نے اس کی دھنائی کردی۔جن لوگوں نے یہ گھناؤنا کام کیا آپ ان کی نفرت کا اندازہ لگائیے۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ اب یہ معمول ہوگیا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو کسی جانور کو ذبح کرنے کے بھی مخالف ہیں،لیکن انسانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹنے کو تیار ہیں۔اس لیے کہ ان کے دل و دماغ کو اس قدر مسموم کردیا گیا ہے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھتے ہیں،ان کا جی چاہتا ہے اسے کچا چبا جائیں۔حالانکہ اس طرح کے لوگوں کی تعداد کم ہے۔لیکن ان کی سرپرستی حکومتیں کرتی رہی ہیں اور الیکٹرانک میڈیا ان کی غلطیوں کو وجہ جواز عطا کرتا رہا ہے اس لیے ان کے حوصلے بلند ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا،خاص طور پر ٹی وی نیوز چینلس پر اس قدر نفرت انگیزی کی جاتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کو پھٹکار لگانی پڑی۔ سپریم کورٹ کسی بات کا نوٹس لے اور اپنا تبصرہ دے تو آپ اندازہ لگائیے کہ پانی کس قدر سر سے اونچا ہوچکا ہوگا۔عدالت عالیہ نے نفرت پھیلانے والی تقاریر پر پابندی کے خلاف داخل درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ”نفرت بھڑکانے والی تقاریر ایک لعنت بن چکی ہیں۔“عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹی آر پی کا کھیل ہے۔اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا گیا کہ جس طرح پرنٹ میڈیا کے لیے پریس کونسل آف انڈیا ہے اس طرح کا کوئی ادارہ  نیوزٹی وی چینلس کے لیے کیوں نہیں ہے؟عدالت عالیہ نے جو ریمارکس دیے وہ قابل قدر ہیں اور ہندوستان کی تصویر واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔گزشتہ چند برسوں میں جس طرح نفرت انگیز تقاریر اور بیانات میں اضافہ ہواہے اس پر ساری دنیا گواہ ہے۔اس فہرست میں کبیر و صغیر اور امیر و وزیر سب شامل ہیں۔جب جس کو موقع ملتا ہے وہ سماج کو تقسیم کرنے والے بیانات دے دیتا ہے۔ کوئی گجرات دنگوں پر فخر کرتا ہے،کوئی گناہ گاروں کی رہائی پر پھول برساتا ہے۔کوئی مسلمانوں کو چن چن کر بنگال کی کھاڑی میں پھینکنے کی بات کرتا ہے۔کوئی شاہین باغ میں کرنٹ لگاتا ہے۔کوئی مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ یہاں آرام سے رہیں،لیکن یہ بھول جائیں کہ وہ کبھی یہاں کے راجا تھے۔کوئی مسلمانوں کو دیش بھکتی کا پاٹھ پڑھاتا ہے تو کوئی وطن سے محبت کا سرٹیفکیٹ طلب کرتا ہے۔یہ بیانات کسی ٹی وی اینکر کے نہیں ہیں بلکہ بڑے ذمہ دار افراد کے ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے۔ان بیانات سے غذا حاصل کرکے ہی ٹی وی انکر ز نفرت کا بازار گرم رکھتے ہیں۔وہ بات کا بتنگڑ بناتے ہیں،انھیں ہر جگہ لوجہاد نظر آتا ہے۔وہ ہر مسلمان کو دہشت گرد بنانے پر اتر آتے ہیں۔زعفرانی حکومتیں ایک ایک کرکے مسلمانوں کے نشانات و آثار مٹانے کے کام پر لگی ہیں۔ان کی بستیاں اجاڑی جارہی ہیں،مغل میوزیم کو شیواجی میوزیم کہا جانے لگا ہے۔مغل سرائے کو دین دیال اپادھیائے کا نام دے دیا گیا ہے۔آخر یہ سب بھی تو نفرت انگیزی کا ہی حصہ ہے۔اسکولوں میں آپ نفرت پر مبنی نصاب پڑھائیں،مسلمان بادشاہوں کو حملہ آور کہیں،مسلمانوں کو بابر کی اولاد بتائیں،ہر تاریخی مسجد کی تہہ میں آپ کو مندر کے آثار نظر آئیں،آپ کوفوارہ بھی شیو لنگ نظر آئے،آپ اقلیتوں کی اسکالر شپ بند کردیں،آپ ان کی مذہبی تعلیم کے ادارے بند کردیں،آپ حج سبسڈی ختم کردیں۔کیا یہ چیزیں اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ آپ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں،اور چاہتے ہیں کہ سارے غیر مسلم بھی نفرت کرنے لگیں۔ٹی وی شو میں بیٹھنے والے آپ کے نمائندے جو زبان بولتے ہیں،جو سوالات اٹھاتے ہیں،جس طرح کے دل آزار کمنٹس کرتے ہیں،کیا وہ نفرت پھیلانے والے نہیں ہوتے۔عدالت عالیہ نے جس طرح ٹی وی چینلس کے اینکرز کو تنبیہ کی ہے اسی طرح سے اسے کوئی ایسا قانونی ادارہ بنانا چاہئے جو ہمارے رہنماؤں کے بیانات اور الفاظ پر نظر رکھے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا عمل اور ان کو کنارے لگانے کا کام آزادی کے بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا۔گاندھی جی کے قتل نے اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ کردیا تھا۔یہ تو مسلمان ہی احمق تھے جو مختلف سیاسی جماعتوں کو سیکولر سمجھ کر اس کا ساتھ دیتے رہے،اور ملک و ملت بچاؤ تحریک چلاتے رہے اور نہ ملک بچا سکے نہ ملت۔آزادی کے بعد ملک نے کتنے خونی فسادات دیکھے،ہزاروں مسلم نوجوانوں کو ٹاڈا اور پوٹا میں گرفتار کیا گیا۔دہشت گردی کا لیبل ماضی کی حکومتوں نے ہی مسلمانوں پر لگایا۔ مسلمانوں کے ساتھ کسی حکومت نے انصاف نہیں کیا اور وہ انصاف کیوں کرتیں جب کہ مسلمانوں میں قوم کے سوداگروں کی خاصی تعدادہمیشہ موجود رہی ہے۔آج بھی قوم کے کتنے ہی خدمت گار قوم کا سودا کررہے ہیں۔جس قوم کے رہنما منافق ہوجائیں تو اس قوم کو غلام ہونے سے کون بچا سکتا ہے؟
نفرت کسی کے لیے مفید نہیں ہے۔نفرت کی آگ اپنا آشیانہ بھی ایک دن پھونک دیتی ہے۔نفرت انگیز بیانات اور سماج کو تقسیم کرنے والی تقریریں خواہ کوئی بھی کرے،اس کا کوئی بھی مذہب ہو اور اس کا کوئی بھی رنگ اور لباس ہو وہ مجرم ہے۔وہ ملک کا اور سماج کا دشمن ہے۔انسان کو پیدا کرنے والے نے اسے اس لیے بنایا ہے کہ وہ انسانیت کے کام کرے۔یہاں کوئی بھی ہمیشہ رہنے نہیں آیا ہے۔چند روزہ زندگی ہے۔ہمارے نفرت انگیز الفاظ کے اثرات و نتائج کئی نسلوں کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔زمانہ اپنے رنگ بدلتا رہتا ہے۔ملک کے اتہاس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔یہاں مسلمان بادشاہ تھے،یہ ایک حقیقت ہے۔اس حقیقت سے کوئی کیسے انکار کرسکتا ہے؟لیکن ان بادشاہوں کے وارث کہاں ہیں؟ اور کس حال میں ہیں یہ کون جانتا ہے؟ یہاں کے مسلمان بھی بادشاہوں کی اسی طرح رعایا تھے جس طرح غیر مسلم تھے۔ملک کے عام باشندوں کو اس سے کیا غرض تھی کہ کون بادشاہ ہے؟بادشاہت میں کسی کو رائے دینے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔اسلام بادشاہت کو پسند نہیں کرتا،ہندوستان کبھی اسلامی اسٹیٹ نہیں تھا۔بادشاہت کو ختم ہوئے بھی کئی سو سال گزر گئے۔آپ ان کے نام بدلیے یا چھوڑیے اس بات سے یہاں کے عام مسلمانوں کو کیا واسطہ؟ اسی لیے نام بدلنے پر کبھی کسی کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔حکمراں قومیں ہمیشہ نام بدلتی رہی ہیں۔لیکن یہ مت بھولیے کہ زمانہ پھر کروٹ بدلے گا۔اس لیے نفرت کے بیج مت بوئیے بلکہ محبت کے درخت لگائیے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں سکون  کے سائے میں سانس لیں۔ٹی وی چینلس کو چاہئے کہ وہ عدالت عالیہ کے ریمارکس کو سنجیدگی سے لیں۔اپنے فائدے کی خاطر ملک کا نقصان نہ کریں۔سماج کو جوڑنے والے،باہم محبت پیدا کرنے والے ایشوز پر بحث کریں اور کرائیں۔خود بھی نفرت پر مبنی الفاظ کا استعمال نہ کریں اور دوسروں کو بھی نہ کرنے دیں۔
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کردو نفرتیں 
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
بشیر بدرؔ

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔

 

«
»

اسمارٹ فون نسل نو کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں

رحمت عالمؐ کی مثالی دوستی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے