خواہشات نفس کی بنا پر کیا گیا اختلاف ملت میں تفرقہ و انتشار کا سبب ہے

  ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

 اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی شکل وصورت اور ایک ہی رنگ روپ پر پیدا نہیں کیا بلکہ تمام انسانوں کی شکل وصورت، رنگ وروپ اور جسمانی طاقت وقوت میں پیدائشی تفاوت پایا جاتا ہے۔ اسی طرح سے مختلف انسانوں کے درمیان عقل وشعور،فکر وتفکر اور غوروخوض کی صلاحیتوں اور مدارج میں فرق پایا جانا بالکل فطری امر ہے۔ جس طرح سے ہماری زبان، ہمارے رنگ اور ہماری جسمانی ساخت کا مختلف ہونا خدا کے وجود کی علامت ہے۔ اسی طرح سے ہماری عقلی صلاحیتوں اور ذہنی ساختوں اور ان کے نتائج غوروفکر میں اختلاف پایا جانا خدا کے وجود کی عظیم تر نشانی ہے۔ کیونکہ انسان کی تخلیق اگر کسی خالق حکیم کے بغیر خود بخود وجود میں آجاتی تو تمام انسانوں کے رنگ اور شکل کی یکسانیت کے ساتھ ان کی ذہنی وفکری ساخت بھی یکساں ہوتی اور پھر انسانی زندگی ارتقاء کے بجائے جمود وتعطل کا شکار ہوکر رہ گئی ہوتی۔ اس لیے ذہن وعقل کے مدارج کا مختلف ہونا، ایک طرف خدا کی قدرتِ کاملہ کا ایک بیّن ثبوت ہے تو دوسری طرف یہ اختلاف کائنات کی ترقی، وجود انسانی کے ارتقاء اور زندگی کی بقاء وتعمیر کے لیے لازمی وضروری ہے۔
”بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا۔ مگر اب تو وہ مختلف طریقوں پر ہی چلتے رہیں گے۔ اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی(آزادیِ انتخاب واختیار اور امتحان) کے لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا۔“(ہود:118،119)
یہ واضح ہوجانے کے بعد کہ اختلاف فکر ونظر ایک فطری امر ہے۔ ا س بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس فطری اختلاف کا دائرہئ کار کیا ہے؟
اگر اختلافِ رائے ذاتی مفاد، شخصی اغراض، مادی منفعت یا حظ نفس کے لیے ہو تو وہ ناجائز اور غیر محمود ہے۔ اس طرح کے اختلافات کو قرآن وحدیث کی زبان میں ”ہوی“ (خواہشات نفس)کہاگیا ہے۔ اور”ہویٰ“ گمراہی وضلالت کا سرچشمہ اور فساد وکرپشن کا منبع ہے۔ تاریخِ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ جب کوئی قوم’’ہویٰ“  کاشکار ہوجاتی ہے تو اس کو زوال وانحطاط سے نہیں بچایا جاسکتا۔ قوم یہود نے جب”ہویٰ“ کی اتباع وپیروی کی، خدا کے احکام میں ”ہویٰ“ کی بنیاد پر اختلاف کیا اور اس کے نتیجہ میں تحریف وتنسیخ کا ارتکاب کیا تو خدا کی جانب سے رہتی دنیا تک کے لیے ان پر ذلت ومنکبت مسلّط کردی گئی۔ چنانچہ قرآن پاک واضح الفاظ میں اس حقیقت پر اس طرح روشنی ڈالتا ہے۔
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَہْوَآءَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَن فِیْہِنَّ (المومنون:71)
”اور اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرے تو زمین وآسمان اور ان میں رہنے والوں میں فساد برپا ہوجائے۔“
 جب اختلاف”ہویٰ“ کی بنیاد پر ہوتا ہے تو انسان کے اند رضد، ہٹ دھرمی کے جذبات کارفرما ہوتے ہیں یا اپنی علمی قابلیت او ربلندیئ فکر ودانش کار عب جمانا مقصود ہوتا ہے اور پھر انسان اپنی بات منوانے کے لیے تمام ذرائع بلکہ یوں کہئے کہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور اپنی رائے لوگوں پر مسلط کرنے کے لیے ملت کی شیر ازہ بندی کو بھی پارہ پارہ کردینے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتا۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جس سے ملت اسلامیہ اس وقت پورے عالم انسانی میں دوچار ہے۔ ”ہویٰ“ کی بنیاد پر بعض اصحابِ علم نے نقطہئ نظر کے اختلاف کو مستقل ایک مکتب فکر(School of Thought)مذہب،مسلک اور فرقہ کی حیثیت دے دی۔ اور اس طرح ملت اسلامیہ لاتعداد مسلکوں اورفرقوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی اور لوگوں نے یہ سوچنا بھی چھو ڑدیا کہ ان اختلافات کے ڈانڈے دراصل ”ہویٰ“  سے جاکر مل رہے ہیں او ر پھر شیطان نے ان اختلافات کو خوب صورت وآراستہ اور دین کا ایک جز بناکر اس طرح پیش کیا کہ لوگوں کے عقیدے میں یہ بات داخل ہوگئی کہ انہوں نے اپنے فرقہ، یا مسلک کے حصار سے اگر ذرا بھی قدم باہر نکالا یا اس کے مخصوص نقطہئ نظر سے آزاد ہوکر ذرا بھی سوچا تو ان کی نجات کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے او اس طرح ملت اسلامیہ ”اختلافات“ کی دلدل میں ایسی پھنسی کہ تمام ترکوششوں کے باوجود اس سے نکلنے کی امید نظر نہیں آرہی ہے۔
اگر اختلافِ رائے ”ہویٰ“ کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ تلاشِ حق، نتائج غوروفکر کے اظہار کے لیے ہو، اس میں ضد، حظ ِنفس کا کوئی شائبہ نہ ہوتو اس طرح کا اختلافِ رائے نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ ضروری اور قابلِ ستائش ہے۔ کیونکہ اختلاف رائے کا پایا جانا انسانی فطرت ہے۔ یہ اختلاف رائے جب بغیر ”ہویٰ“ کے پایا جائے تو اس سے انسان کو بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مخلصانہ اختلافات کی شکل میں مختلف فیہ مسئلہ کے تمام پہلو سامنے آتے ہیں، بہت سے امکانات واحتمالات کے جائزہ کا موقع ملتا ہے۔ عقل وشعور کی تربیت اور آبیاری ہوتی ہے، فکر ونظر کے دروازے کھلتے ہیں،ارتقاء وتعمیر کے لیے نئے گوشے سامنے آتے اور اس طرح مسلم معاشرہ خلوص ومحبت کے ماحول میں اپنے مسائل کوبہتر طور پر حل کرکے ترقی کی راہ پرگامزن ہوتا ہے۔
یہی وہ طرز فکر ہے جو ہمیں مسلمانوں کے دور اول میں نظرآتا ہے او ر یہ اصول کہ اختلاف رائے کرنے والے کو اپنی رائے پر مصرنہ ہونا چاہیے، بلکہ اس کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس طرح وہ اپنی رائے کو صحیح سمجھتا ہے اسی طرح سے دوسرے کی رائے بھی صحیح ہوسکتی ہے اور جس طرح وہ دوسرے کی رائے کو غلط سمجھتا ہے ٹھیک اسی طرح سے اس کی رائے بھی غلط ہوسکتی ہے۔ یہ اسلام کا زریں اصول ہے جس کو اپنا کر مسلمان قرن اول میں علم وتہذیب کی شمعیں روشن کرتے رہے،افکارونظریات کی دنیا میں انقلاب لاتے رہے، علم وفنون کو ارتقاء سے ہمکنار کرتے رہے، ثقافت وتمدن کو بلندی وپاکیزگی عطا کرتے رہے او رعملاً ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کرتے رہے۔ جہاں لڑائی جھگڑے، مخالفت ومخاصمت، فرقہ بندی وگروہی عصبیت کا نام ونشان تک نہیں ملتا۔ جہاں معاشرہ کا ہر فرد دوسرے فرد کا ادب واحترام کرتا ہے، اس کی عزت وآبرو کو اپنی عزت وآبرو سمجھتا ہے۔ او راختلافِ رائے رکھنے والے کا ادب واحترام بھی اسی طرح کرتا ہے جس طرح اپنی رائے سے متفق لوگوں کا ادب واحترام کرتا ہے چنانچہ اس طرح خوش گوار تعلقات کے اس ماحول میں قابل رشک انسانی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
مختصراً یہ کہ اختلاف رائے کے دو محرکات ہوتے ہیں۔ اگر اختلافِ رائے کا محرک ”ہویٰ“  ہوتو وہ اختلاف فساد کا سرچشمہ ہوتا ہے جس سے آج ملت اسلامیہ دوچا رہے اور اگر اختلافِ رائے کا محرک”خلوص“ ہوتو اس سے خیر وفلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں جس کی مثال ہمیں اسلاف کے یہاں ملتی ہے۔
اس لیے ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اختلافِ رائے کرتے وقت نہایت دیانت داری سے سخت احتساب کرے کہ اس کے اختلافِ رائے کے ڈانڈے کہیں ”ہویٰ“ (خواہش نفس) سے جاکر تو نہیں مل رہے ہیں؟ کہیں اس کی رائے اور مسلک کے ظاہری حسن کو شیطان نے تو آراستہ نہیں کیا ہے؟ وہ وقتی حالات کے دباؤ سے متاثر ہوکر مستقل اصول ومبادی سے انحراف تو نہیں کررہا ہے؟ اس کے نقطہئ نظر کی تشکیل میں کسی جانب شعوری یا غیر شعوری جھکاؤ تو کار فرما نہیں ہے؟ اگر اس احتساب کے نتیجہ میں انسان کو خود اپنی رائے میں تذبذب نظر آئے یا وہ قلق اور بے چینی محسوس کرے تو اسے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی رائے سے دست کش ہوجانا چاہیے کہ خدا نے ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے پہلے اسے سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی اور اگر انسان کو احتساب کے بعد شرح صدر ہوجائے کہ اس کی رائے کا محرک خلوص ہے، اس نے قرآن وحدیث کے احکام کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس کی رائے عقل سلیم سے بھی متصادم نہیں ہے، اس کی رائے کوبنانے میں وقتی حالات یا دباؤ کو بھی کوئی دخل نہیں ہے، تو اس کو اپنی رائے کا اظہار اس ارادہ سے کرنا چاہیے کہ اگر اس کے سامنے اس سے بہتر کوئی دوسری رائے آجائے گی تو وہ اس کو قبول کرنے اور اپنی رائے کو رد کردینے میں کوئی باک محسوس نہیں کرے گا۔
(آداب الاختلاف فی الاسلام سے مستفاد)

 

«
»

مغربی بنگال کی جیلیں مسلم قیدیوں کا مقتل کیوں بن رہی ہیں؟

بچوں کے ادب میں اخلاقی قدروں کی اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے