’’کیوں‘‘ سے آغاز کریں!

 

قاسم علی شاہ

سائمن سائنک کی بیسٹ سیلر کتاب "Start With Why" کی تلخیص

 

28 اگست 1963ء کا دِن اس لحاظ سے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ اس دِن امریکہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد اجتماع منعقد ہوا تھا۔

 صبح ہی سے واشنگٹن کی سڑکوں پر جگہ جگہ سیاہ فام دکھائی دے رہے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، اس تاریخی اجتماع کو میڈیا نے بھی کوریج دینے کا آغاز کر دیا۔ چند گھنٹوں میں ہی شرکاء کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔

سیاہ فاموں کا نوجوان رہنما مارٹن لوتھر کنگ جلسہ گاہ پہنچا تواس کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ امریکی حکومت بھی اس اجتماع کا بغور جائزہ لے رہی تھی، خبروں میں بار بار اس کا تذکرہ ہو رہا تھا اور جب مارٹن لوتھر کنگ نے مائیک سنبھالا تو یہ منظر میڈیا پر براہِ راست دِکھایاجا رہا تھا۔

لوتھر کنگ نے دھیمے اندازمیں کہا ’’میرا ایک خواب ہے‘‘ اور پھر تیز آواز میں دہرایا: ’’میرا خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں کے دامن میں ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے گلے ملیں، میرا ایک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں، میرا اک خواب ہے کہ۔۔۔۔‘‘ وہ بولتا رہا اور لوگ پوری توجہ سے اس کو سن رہے تھے۔ لوتھر کنگ جونیئر کی اس تقریر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا، ان کی اس تقریر کو امریکی تاریخ کی تیسری عظیم ترین تقریر کہا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب سوشل میڈیا نہیںتھا اور ابلاغ کے دیگر ذرائع بھی تیز رفتار نہیںتھے تو پھر ایک آدمی کی آواز پر ڈھائی لاکھ لوگ کیسے اکٹھے ہوگئے؟

اس سوال کو یہیں پر روک کر ہم ایک اور منظر کی طرف بڑھتے ہیں۔

یہ آج سے 74سال پہلے1947 ء کا زمانہ ہے۔اس دورمیں ایک انسان اٹھتا ہے، وہ ایک نظریہ پیش کرتا ہے اور اس کا مقدمہ ہر پلیٹ فارم پرلڑنا شروع کردیتا ہے۔ ہزار مخالفتوںکے باوجود وہ اپنی قابلیت اوردوراندیشی سے اس موقف کو پوری دنیا سے منوا لیتا ہے اور ایک طویل جدو جہد کے بعد الگ مملکت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں لوگ اپنی زمین، جائیداد، وراثت، کاروبار اور حتیٰ کہ اپنی امیدوں کو بھی چھوڑکر بے یار و مددگار ایک اجنبی سرزمین کی طرف ہجرت کرنا شروع کردیتے ہیں اور موت سے لڑکر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں بھی سوال اٹھتا ہے کہ ایک انسان کی آواز پر لاکھوں لوگ اپنا گھر بار کیسے چھوڑدیتے ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں عظیم شخصیات کا ’’کیوں؟‘‘ (Why) یعنی ان کی جدوجہد کا مقصد بہت واضح تھا۔ قائداعظم کی بات اگر لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دِل میں گھر کرگئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی تمام جدوجہد کا مقصد ایک الگ ملک بنانا تھا، جس میں لوگ امن وامان کے ساتھ رہ سکیں ۔ مارٹھن لوتھر کنگ کی I have a dreamکی صدا اگر آج بھی امریکیوں کے ذہنوں میں گونج رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی ایک واضح مقصد اور موقف کی جنگ لڑ رہا تھا جس میں سیاہ فام انسانوں کو برابری کی سطح پر لانا تھا۔

2009 ء میں برطانوی نژاد امریکی انسپائریشنل اسپیکر اورکئی مقبول کتابوں کے مصنف، سائمن سائنک نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے: “Start with Why” ۔ NDP ریسرچ کمپنی کے مطابق لیڈرشپ کے موضوع پر یہ ایک بیسٹ سیلر کتاب رہی ہے۔اس کتاب میں سائمن سائنک نے ایک بنیادی نفسیاتی پہلو پر بات کی ہے۔ سائمن سائنک بتاتا ہے کہ کسی بھی انسان کا Why جس قدر واضح ہوتا ہے، اسی قدر وہ اپنے مشن اور موقف میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔ کتاب کا اہم ترین نکتہ ’’گولڈن سرکل‘‘ ہے۔ اس سرکل میں تین دائرے ہیں۔ پہلا دائرہ Whatکا ہے ، اس کے اندر دوسرا دائرہ Howکا ہے اور آخر میں Whyکا دائرہ ہے۔

وہ بتاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میںکوئی شخص جب کوئی کام کرتا ہے تو وہ Whatسے آغاز کرتا ہے۔اس کے بعد وہ Howکے دائرے پر جاتا ہے اور آخر میں Why پر ۔مثال کے طورپر ایک نوکری پیشہ شخص سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ تو وہ کہتا ہے کہ نوکری۔ یہ پہلے دائرے What کاجواب ہے۔ پھر اگر پوچھا جائے کہ کون سی نوکری تو اس میں وہ بتاتا ہے کہ میں فلاں ملازمت کرتا ہوں اور اس میں مجھے یہ یہ کام اس طریقے سے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ دوسرے دائرے How کا جواب ہے۔

سائمن سائنک بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت سارے لوگ Whyکو نظر انداز کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ اگر اسی کی بنیاد پر کوئی کام شروع کیا جائے تو وہ بہت جلد مقبول ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال رائٹ برادران کا جہاز ایجاد کرنے کا واقعہ ہے۔ اسی زمانے میں ایک اور شخص سیموئیل بھی تھا اور وہ بھی جہاز ایجاد کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اس کے پاس باقاعدہ ایک کمپنی اور پروفیشنل ٹیم تھی۔اس کی کمپنی کو فنڈنگ بھی کی گئی تھی تاکہ ایک ایسی چیز ایجاد کی جا سکے جس کی بدولت انسان ہوا میں اڑ سکے، لیکن سیموئیل کے پاس اپنے اس کام کے کرنے کاWhy نہیں تھا۔

وہ یہ سب کچھ صرف اس لیے کر رہا تھا کہ وہ اس کریڈٹ کو اپنے نام کرسکے کہ دنیا میں سب سے پہلے اسی نے ایک ایسی چیز ایجاد کی تھی جس کے ذریعے انسان ہوا میں اڑ سکتا ہے۔ باالفاظ دیگر وہ پیسہ اور شہرت کمانا چاہتا تھا۔ اس کے برعکس رائٹ برادران کے پاس فنڈنگ تھی، نہ ہی بھرپور وسائل اور نہ ہی کوئی پروفیشنل ٹیم۔ لیکن اس کے باوجود وہ جہاز ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئے، کیونکہ ان کا Why بہت واضح تھا۔ یہ ان کا جنون تھا کہ ہم نے ایسی ایک مشین ایجاد کرنی ہے جس سے انسانیت کو بھرپور فائدہ ہو اور اسی جذبے نے انھیں کامیاب بھی کیا۔

آپ نے اسٹار بکس کا نام تو سنا ہوگا؟ دنیا کا ایک مشہور کافی برانڈ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ شہرت کیا ہے؟ اسٹار بکس کے بارے میں تو سب کو معلوم ہے کہ یہ برانڈ کیا کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے یعنی اس کے What اور Howکے بارے میں علم ہے لیکن بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ’’اسٹاربکس‘‘ یہ کام کیوں کررہا ہے۔ ’’اسٹار بکس‘‘ کا مقصد اپنے صارفین کو گھر اور دفتر کے علاوہ ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جس میں بیٹھ کر وہ کافی پئیں،کتاب پڑھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کریں۔ یہ اسٹار بکس کا Whyہے اور اسی مضبوط Whyکی بدولت وہ دنیا بھر میں مقبول ہوا۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسکول کے زمانے میں اساتذہ اپنے طلبہ کوکتاب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیںکہ فلاں فلاں کتاب پڑھیں۔ بچے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ کچھ دِن بعد ٹیچر پھر پوچھتا ہے اور تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ فلاں کتاب ضرور پڑھیں لیکن طلبہ کے اندر کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیوں کہ استاد یہ تو بتاتا ہے کہ کتاب پڑھیں یعنی وہ What کے بارے میں بتا رہا ہے لیکن Whyکے بارے میں نہیں بتا رہا کہ یہ کتاب کیوں پڑھی جائے۔

اس کے برعکس ایک موٹیویشنل اسپیکرکے ایک دفعہ کہنے پر لوگ کتاب پڑھنا شروع کردیتے ہیں، کیونکہ وہ Whyسے آغاز کرتا ہے۔ وہ اپنی تقریر میں بتاتا ہے کہ کیا آپ اپنے آپ کو ایک باوقار شخصیت بنانا چاہتے ہیں؟کیا آپ ایسی تکنیک جاننا چاہتے ہیں جو آ پ کو ایک بہترین گفتگو کرنے والا بنائے اور لوگ آپ کی باتوں میں دلچسپی لیں اور آپ کو سننا چاہیں؟ اگرآپ یہ چاہتے ہیں توڈیل کارنیگی کی کتاب The Art of Public Speaking پڑھیں اور لوگ اس کتاب کو پڑھنا شروع بھی کردیتے ہیں۔

گولڈن سرکل کا اصول ہر آرگنائزیشن میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ کسی بھی ادارے میں تین قسم کے افراد ہوتے ہیں: اسٹاف ، مینجرز اور سی ای او۔ اسٹاف ، اس کمپنی کے Whatوالے سرکل پر چلتا ہے۔ اس کو پتا ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کام کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹاف میں سے کوئی فرد چلا جائے تو اس سے کمپنی کو زیادہ فرق نہیں پڑتا او ر بہت جلداس کا متبادل مل جاتا ہے۔

منیجرز دوسرے سرکل How پر چلتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اسٹاف سے کام کیسے لینا ہے۔ ان کے جانے سے اگرچہ کمپنی کو وقتی طور پر فرق پڑتا ہے لیکن اس کمی کو بھی پوراکر لیا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر CEO ہوتے ہیں جو کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ گولڈن سرکل کے تیسرے حصے Why پر کام کرتے ہیں، یعنی وہ جانتے ہیں کہ ہم نے یہ کام کیوں کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر سی ای او کمپنی کو چھوڑ دے تو پھر کمپنی بھی نہیں بچتی۔

سائمن سائنک بتاتا ہے کہ گولڈن سرکل رول ایڈورٹائزمنٹ کے شعبے میں بھی بھرپور طریقے سے استعمال ہوتا ہے۔آج سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار ہے۔ ہر کمپنی اپنے اشتہارات پر کروڑوں روپے لگاتی ہے اور ان کی سب سے بڑی کوشش اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ صارفین کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کر سکیں، کیونکہ یہ ان کے بزنس کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت ساری کمپنیاں Whatکے سرکل پر عمل کرتے ہوئے اپنی کمپنی کی ایڈورٹائزمنٹ کرواتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ یہ ہماری کمپنی کا موبائل فون ہے، اس میں اتنے میگاپیکسلز کا کیمرہ، بیٹری اور فلاں فلاں فیچر ہے اور یہ آپ کودوسرے موبائل سے کم قیمت میں مل سکتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ کمپنیاں گولڈن سرکل کے Whyوالے رول پر اپنی ایڈورٹائزمنٹ کرواتی ہیں۔

مثال کے طورپر ایک فرنیچرکمپنی اپنے اشتہار میں یہ بتاتی ہے کہ ہماری تیار کردہ کرسی آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ آ پ کوکمر کے درد سے بھی بچاتی ہے اور اس کے استعمال سے آپ کمر کے درد کا شکار نہیں ہوں گے۔ توایسے اشتہارات لوگوں کے دِلوں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ وہ ایسی مصنوعات کو پسند کرتے ہیں اور انھیں خریدنا چاہتے ہیں، پھر وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اس کی قیمت دوسری کمپنی سے زیادہ ہے۔

سائمن سائنک کتاب میں Manipulate اور Inspiringکا فلسفہ بھی بتاتے ہیں ۔وہ تمام کمپنیاں جو Manipulationسے کام لے کر اپنے صارفین بناتی ہیں، یعنی پراڈکٹ کی قیمت کم کرکے یاکوئی اور لالچ دے کر اپنی چیزیں بیچنا چاہتی ہیں، وہ وقتی طورپر فائدہ تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن بہت جلد وہ نقصان بھی اٹھاتی ہیں اور ان کا روزگار زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، جبکہ وہ کمپنیاں جو لوگوں کیں حقیقی طورپر تحریک پیدا کر کے اپنی مصنوعات بیچتی ہیں تو ان کا کاروبار کبھی ماند نہیں پڑتا۔ مصنف کہتا ہے کہ اگر آپ نے اپنے بزنس کو پروان چڑھانا ہے تو آپ کو ہیراپھیری سے نہیں بلکہ اپنی بنیادی اقدار سے کام لینا ہوگا۔ لوگوں کو انسپائر کرنا ہوگا اور یہی لیڈرز کا طریقہ بھی ہے۔

خلاصہ

٭Start with Why کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر انسان گولڈن سرکل کو اپنی زندگی میں استعمال کرے لیکن پہلے دائرے (What) اوردوسرے دائرے (How) کی طرف نہ جائے بلکہ (Why) سے شروع کرے۔ لوگوں میں مقبول ہونے کا یہی راز ہے۔

٭آپ نوکری کر رہے ہیں، کاروبار کررہے ہیں یا فری لانسنگ۔ اپنے Whyکو ہمیشہ واضح اور بڑا رکھیں۔ آ پ کا Why جتنا بڑا ہوگا، آپ کی اہمیت بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ قائد اعظم اور لوتھرکنگ کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔

٭کبھی بھی اپنی چیز بیچنے کے لیے ہیرا پھیری (Manipulation) سے کام نہ لیں۔ یہ چیز شاید وقتی فائدہ دے لیکن آپ زیادہ دیر تک اپنی کامیابی برقرار نہ رکھ پائیں گے اور دھڑام سے گریں گے۔

٭جوش و جذبہ انسان کو متحرک تو کردیتا ہے لیکن یہ بہت جلد ختم بھی ہو جاتا ہے ۔آپ اگر ایک بڑا لیڈر بننا چاہتے ہیں تو اپنے سامعین میں جوش و جذبہ پیداکرنے کے بجائے انھیں ٹھوس اقدامات اور ان کے واضح نتائج بتائیں تو یہ چیز انھیں لمبے عرصے تک متحرک رکھے گی۔

اس کتاب میں گولڈن سرکل کے علاوہ اور بھی بہت ساری ٹپس موجود ہیں جو آپ کی زندگی کو شاندار بنا سکتی ہیں۔

 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

«
»

مسلم اور غیر مسلم تعلقات

اصلاحی وتنقیدی مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے