سنگھی دہشت گردوں کے ذریعے ماب لنچنگ اور خاموش تماشائی بھیڑ خطرے کی گھنٹی ہے۔

 

  از۔ ذوالقرنین احمد 

اندور میں گزشتہ روز تسلیم نام کے چوڑی فروش کو بھگوا  دہشت گردوں نے جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا ہے وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ کے بی جے پی کے اقتدار میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر کس طرح سے بھارت کی سرزمین کو تنگ کیا جارہا ہے۔ کھلے عام گائے، غیر مذہبی نعرے بازی کے نام پر  ماب لنچنگ، فرقہ وارانہ فسادات کروا کر مسلمانوں کی جان مال کو نقصان پہنچانا اب  کوئی تعجب خیز بات نہیں رہی ہے۔ دنیا بھر میں مودی حکومت کی ناکامیوں اور بدنامی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ کل جس طرح سنگھی دہشت گردوں نے اندور کے تسلیم نامی چوڑی فروش کو مسلم نام ہونے کی وجہ سے جبراً تشدد کا نشانہ بنایا ، جس کے بعد مسلمانوں میں غصہ دیکھ کر فرقہ پرستوں کے خلاف پولیس نے بہت ساری دفعات کے تحت دہشت گردوں کے خلاف مقدمات درج کیے اور انہیں گرفتا کیا گیا۔ لیکن آج ایک ویڈیوں سوشل میڈیا پر اندور کی وائرل ہورہی ہے جس میں ایک بڑی بھیڑ اندور کے ڈائی آئی جی آفس کے باہر  گرفتار کیے گئے سنگھی دہشت گردوں کی رہائی کیلئے احتجاج کرتی دیکھائی دے رہی ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ چوری تو چوری اور اس پر سینا زوری مطلب ظالم دہشت گردوں کے حق میں ہی اتنی بڑی تعداد میں بھیڑ کا اسے بچانے کیلئے سڑکوں پر بے خوف ہوکر نکلنا اور سرکاری آفس کے باہر احتجاج کرنا یہ بھارت کیلئے بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔ 

سوچنے کی بات ہے جب فرقہ پرست سنگھی ایک نہتے مسلمان پر بھیڑ کی شکل میں حملہ کرتے ہیں اور ویڈوں بھی بناتے ہیں اور ایسی ایک کیس نہیں بلکہ سیکڑوں کیسز پولس ریکارڈ میں موجود ہے۔ سوشل میڈیا اور اخبارات میں اسکی خبریں شائع ہوچکی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات بھی پیش ہوئے ہیں لیکن یہ سب ہونے کے باوجود بھارت کے قانونی اور انصاف  مہیا کرنے والے اداروں کی طرف سے کوئی سخت موقف اختیار نا کرنا سوچنے پر مجبور کردینے والی بات ہے اور ان تمام اداروں کی ذہنیت شک کے دائرے میں لاکھڑا کرنے کے برابر ہے۔ بی جے پی کے فرقہ پرست حکم تو میڈیا چینلز پر اس بات کا یقین دلاتے دیکھائی دیتے ہیں کہ کوئی ہندو دہشت گرد ہوہی نہیں سکتا۔ جیسے ایک ویڈوں میں اتر پردیش کے وزیر اعلی نے یہ بات کہی ہے کہ ہندو دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا ہونی چاہیے، جبکہ ملک کے حالات یہ بنے ہوئے ہیں کہ  جو لوگ ماب لنچنگ کر رہے ہیں ان پر کوئی قانونی کروائی نہیں کی جاتی ہے اگر ہوتی بھی ہے تو چند روز میں اسے بری کردیا جاتا ہے اور سنگھی فرقہ پرست تنظیمیں اسکا استقبال کرتی ہیں۔ پونے کے محسن شیخ سے لے کر آج تک سیکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ لیکن میرے نظر سے کہی ایسی کوئی خبر نہیں گزری کہ قاتلوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہو، کیونکہ جبتک یہ سنگھی فرقہ پرست دہشت گردوں کو تختۂ دار پر نہیں لٹکایا جائے گا تو یہ سلسلہ نہیں رکنے والا ہے۔ 

اس میں ایک بات یہ بھی قابل غور اور نئے بھارت کیلئے فکر مند کرنے والی ہے۔ بلکہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ جب ایک مظلوم شخص پر پوری بھیڑ لاٹھیوں، کراڑی، ہتھوڑے، اور لاتوں گھوسوں سے اس پر حملہ کرتی ہے تو باقی لوگ تماشائی بن جاتے ہیں ویڈیوں بنانے لگ جاتے ہیں۔ ان کے اندر انسانیت نہیں جاگتی ہے۔ یہ جو سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انکا سیکولرازم مسلمانوں کو قتل ہوتے دیکھ کر ہندوتوا میں بدل جاتا ہے۔ انکی خاموشی اور کوئی رد عمل ظاہر نا کرنا کھلے طور پر ہندوتوا دہشت گردی کی تائید کرنے کے مترادف ہے۔ مجھے یہ سوچ کر بے حد افسوس ہورہا ہے کہ ہر معاملے میں کسی جانور کے کوئی گارڈن، یا زو، پارک وغیرہ میں مر جانے پر پورے سوشل میڈیا پر غم کا اظہار کرنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہیں ٹوىٹر پر ٹرینڈ کرنے لگ جاتا ہے۔ انسانیت جاگ جاتی ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد کیا انسان کہلانے کے لائق ہے۔ جو جانور کی کتے ہاتھی کی موت پر جھوٹے آنسوں بہائیں انسانیت کا درس دینے لگ جائے  لیکن اسی ملک میں ایک نہتے بے قصور مسلمان پر حملہ ہوتا دیکھ کر ماب لنچنگ ہوتی دیکھ کر خاموش تماشائی بن جائے۔ وہ انسانیت کے درس کی ساری باتیں فراموش کر بیٹھے، وہاں ظالم کی خموشی کے ساتھ تائید کرنے لگ جائے یہ بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ 

ایک بات ان فرقہ پرستوں کی سنگھی دہشت گردوں کی بڑی عجیب ہے  یا پھر یوں سمجھ لیجئے کہ چالاکی ہے۔ جب یہ مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں تو بھگوا دھاری ان پر حملہ کرتے ہیں اور باقاعدہ ویڈیوں بناتے ہیں۔ تاکہ خوف کی فضا قائم کی جائے۔ اور اقلیتوں کو خوف زدہ کیا جاسکے اور جب یہ کسی دہشت گرد کی گرفتاری کے خلاف سرکاری دفاتر کے سامنے احتجاج کرتے ہیں تو ہاتھوں میں بھگوا جھنڈوں کے ساتھ ترنگا بھی لے کر احتجاج کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے یہ کتنے پلاننگ کے ساتھ مجرم کی طرفداری کرتے ہیں اور مجرموں کی رہائی کیلئے کس قدر پرزور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آتے ہیں تاکہ اگر کہیں کچھ کم زیادہ ہوتا بھی ہے تو پھر پولیس اور حکومتی نمائندوں پر یہ الزام لگا دیا جائے کہ ترنگا لہرا رہے دیش بھکتوں پر پولس نے ظلم کیا یا پھر سیدھی بات یہ کے ترنگے کو پروٹیکشن حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کیسی تصویر آج نئے بھارت کی ہمارے سامنے ہیں ذرا تصور کیجیے اگر یہی حال رہا تو آئندہ کچھ سالوں میں اقلیتوں کے ساتھ ان فرقہ پرست عناصر کا کیا رؤیہ رہے گا۔ کس قدر ظلم و ناانصافی، زیادتی عروج پر ہوگی، کس قدر مسلمانوں کے حقوق کو غصب کیا جائے گا۔ اگر آج مسلمان ہوش میں نہیں آتے ہیں تو کل کیلئے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ نئی نسل کو فرقہ پرست عناصر سے بچانے کیلئے اور ملک کی فضا کو پرامن اور خوشحال بنانے کیلئے ان سنگھی دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا جانا بیحد ضروری ہے۔

 ایک مومن کی جان عزت و احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک خانۂ کعبہ سے افضل ہے تو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس آج کیا لائحہ عمل تیار ہے۔ اور ہم کس طرح سے کن خطوط پر اپنی نسلوں کی تربیت کر رہے ہیں۔ آئیندہ مستقبل قریب میں پیش آنے والے چیلنجز کیلئے ہمارے پاس کیا وہ افرادی قوت اور ہر محاذ پر فرقہ پرستوں سے نبردآزما ہونے کیلئے کونسا لائحہ عمل تیار ہے۔ ہم نے اپنے بچوں اپنی بیٹیوں ماؤں بہنوں کی تربیت کیلئے کیا اقدامات کیے ہے۔ آج یہ بے بات بڑے افسوس کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں ہم تو اپنے مذہب کو لے کر بھی ابھی بیدار نہیں ہوئے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کیلئے ہی تیار نہیں ہے۔ ہماری مساجد کا یہ حال ہے کہ گزشتہ ایک دیڑ دہائی قبل بچوں کی تعداد مساجد میں کم و بیش آدھی پاؤ سف نمازوں میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج ذرا جائزہ لیجے کہ آخر یہ ارتداد کا مسئلہ کیوں کر اتنی تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔

اول روز سے باطل نے ہمیں اپنے عقائد اور نظریات، تہذیبی اقدار سے دور کرنے کیلئے کافی محنت کی ہے جس کا نتیجہ آج انکے سامنے ہیں۔ کہ کس طرح سے مسلمانوں کی بیٹیاں ارتداد کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے۔ ہماری نسل نو گھریوں تربیتی نظام سے محروم ہوچکی ہے۔ تو سوچیے آئیندہ سا لوں میں کتنے فیصد مساجد میں نمازی باقی رہے گے‌ یہ قوم کیسے مضبوطی سے باطل طاقتوں کا مقابلے کریں گی‌۔ کیسے یہ باطل طاقتوں کو خاک آلود کریں گی۔ جبکہ انکی تربیت کیلئے مذہبی عقائد و نظریات، تہذیبی اقدار کی حفاظت کیلئے مذہبی شعائر کی حفاظت کیلئے یہ نسل کیسے تیار ہوجائیں گی۔ اب کوئی آسمان سے فرشتے تو نہیں اتر کر انکی ترتیب کریں گے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے بھارت کی تصویریں ہمارے سامنے ہیں سوچئے اور عملی اقدامات کرنا شروع کردیجئے۔ ورنہ حالات بد سے بدتر رخ اختیار کرچکے ہیں۔

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا 

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔

احمد فراز

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

«
»

پہلا شہید صحافی۔۔۔علامہ محمد باقر مجتہد جعفری

آہ! استاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے