نوجوان ملت کا سرمایہ

 

سیداحمد ہاشم ندوی

 

نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ ،اس کی امیدوں کا مرکز،اس کے خوابوں کی تعبیراوراس کے روشن مستقبل کا امین ہوتا ہے ۔

          نوجوانی کی عمر بلوغت کے بعد سے شروع ہوتی ہے،بلوغت کے بعد انسان کے اندر بہت ساری تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں،بہت سے کام کرنے کے حوصلے اور امنگیں پنپنے لگتیں ہیں،اور انسان کی عقل بھی اسی دور میں پختہ ہونی شروع ہوتی ہے،اور اسی دور میں جذبات کا ایک سیل رواں اس کے اندر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے،کٹھن سے کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرنے لگتا ہے۔

اللہ کے رسولﷺنے اسی عمر کو غنیمت سمجھنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ کیونکہ بڑے بڑے معر کے اور کارنامے اسی عمر میں انجام دئے  جاسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن میمونؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں  کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: جوانی کوبڑھاپے سے پہلے، صحت کوبیماری سے پہلے، خوش حالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کومشغولیت سے پہلے، زندگی کوموت سے پہلے۔ (ترمذی)

           اسلامی تاریخ نوجوانوں کی جانفشانی اور قربانی کے واقعات سے بھری ہوئی ہے، قرآن کریم میں بھی نوجوانوں کے متعلق  قصے موجود ہیں ابو الانبیاءحضرت ابراہیم علیہ السلام جنہیں خلیل اللہ کا لقب عطا ہوا  ، ان کا واقعہ دیکھ لیجئے   کہ عین نوجوانی کے عالم میں بت خانے کے بتوں کو توڑ دیتے ہیں ۔ لوگوں کو معلوم ہوا تو کہنے لگے ہم نے ایک نوجوان کے بارے میں سنا ہے اسی نے ایسا کیا ہوگا ؟(قالو سمعنا فتی یذکرھم یقال لہ ابراہیم)۔ حضرت یوسف کے واقعہ کو پڑھئے کی انہوں نے  نوجوانی ہی کی عمر میں دعوت ِگناہ کو کیسے ٹھکرایا تھا(قال معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوای) ۔ حضرت موسی علیہ اسلام کو دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے ایک قبطی کو ایک طمانچہ رسید کیا(فوکزہ موسیٰ فقضیٰ علیہ) ۔ جس کے نتیجہ میں اس کی موت واقع ہوگئی ۔ یہ بھی آپ کے عین جوانی اور عنفوان شباب کا وقت تھا ۔اور اپنے ملک کے ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچنے اور اپنے ایمان و عمل کی حفاظت کیلئے غار میں پناہ لینے والے اصحاب کہف کون تھے ؟ وہ بھی نوجوانوں ہی کا ایک گروپ تھا(انھم فتیۃ اٰمنو بربھم وزدناہم ھدیٰ)

          اسلامی تاریخ از اول تا امروز نوجوانوں کے کارناموں سے ہی بھری ہوئی ہے ،چاہے وہ اسلام کا پہلا گھردار ارقم کے مالک ارقم ابن ابی الارقم  (16 سال) ہوں، یا پھر ہجرت کی رات نبیﷺ کے بستر پر لیٹنے والے علی بن ابی طالب ، چاہے وہ ابو جہل کو کیفر کردار تک پہونچانے والے  حضرت معاذ (۱۳)و معوذ بن عفراء ۱۴سال)ہوں یا پھر شام کی طرف جانے والے لشکر کے قائد اسامہ بن زید(۱۸سال) ،یا پھر فاتح اندلس طارق بن زیاد (۲۰سال) ،فاتح ہند محمد بن قاسم (17سال) ، کاتب وحی زید بن ثابت  ہوں (۱۳سال) جنہوں نے سریانی اور یہودی زبان کو ۱۷ راتوں میں سیکھ لیا تھا، امام دار الھجرہ مالک بن انس ہوں جب وہ فتویٰ دینے کے لئے بیٹھے تو ان کی عمر صرف ۱۷ سال تھی انہوں نے کہا کہ میں فتوی دینے اس وقت بیٹھا ہوں جب مدینہ شہر کے ستر لوگوں نے میرے بارے میں گواہی دی ہے ،اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں  جو نوجوانوں کی اولوالعزمی کی داستان بن کر تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔

اولو العزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں                           سمندر پاٹتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں

تاریخ بتاتی ہے کہ نوجوانوں نے  کس طرح  اپنی سچی لگن اور جذبہ قربانی کے ساتھ قوم اور سماج کی تعمیر میں اہم کردار اداکیاہے۔

کیونکہ جوانی فولادی ہوتی ہے ،جو قوم کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتی ہے

جوانی وہ نشہ ہے ،جو ہر چیز کو آسان کرتی ہے

جوانی وہ تریاق ہے ،جو ہر زہر کے لیے دواء بن سکتی ہے

جوانی وہ دواء ہے ،جو ہر مرض کو کافور کرتی ہے

جوانی وہ اینٹ ہے ، جو سنگ مرمر ،یاقوت اور زمرد سے بھی زیادہ  قیمتی ہے
اور نوجوانی وہ آگ بھی ہے جس کا اگر صحیح استعمال ہو تواسےکندن بنادیتی ، ثری سے ثریا تک پہنچاتی ہےاور اگراسی جوانی کااستعمال غلط ہوتوراکھ کا ڈھیر بناتی ہے ۔

نوجوانی کواگر  قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کے مجموعہ سے تعبیر کیا جائے  تو مبالغہ نہ ہوگا، کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا ہی  کرداراہم  ہوتا ہے ، ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہویا ملکی سطح کاہوں ان تماموں کے پیچھے نوجوان جسم اور طاقتیں ہوتی ہے۔

بیسوی صدی کا نوجوان اور چیلنج

نوجوانوں میں اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ تربیت کی ہے  ورنہ آج کا  نوجوان ایک کلک میں وہ سب کچھ کرسکتا ہے جس کو کرنے کے لئے پرانے زمانےمیں  سالوں سال درکار ہوتے تھے،وہ آج اپنے قلم کے ذریعہ وہ کام کرسکتا ہے جس سے بہت سے فتنوں کا سر قلم کیا جاسکتا ہے ۔

وقت ہیکہ نوجوانوں کی صحیح تربیت کرکے ان میں دینی احساس و دینی حمیت پیدا کی جائے ،ان کا دین پر اعتماد پختہ کیا جائے۔اور نوجوانوں  کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے کردار اور عمل سے یہ ثابت کریں کہ وہ مستقبل کے معمار ہیں، اور پھر کسی اقبال کو اٹھ کر پھر یہ کہنا پڑے کہ

زمانے کے انداز بدلے گئے                                          نیا راگ ہے ساز بدلے گئے

خرد کو غلامی سے آذاد کر                                             جوانوں کو پیروں کا استاد کر

سب سے بڑا چیلنجز

سب سے بڑاچیلنج جو اس وقت  بیسوی صدی کے نوجوانوں کے سامنے ہے وہ نظروں کی حفاظت کا ہے ۔بقول اقبال

حیا نہیں ہے زمانہ کی آنکھ میں باقی                   خدا کرے کہ  جوانی تری رہے بے داغ

 

 

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے