فرقہ واریت کو مجرمانہ ثابت کرنے کی کوشش

حفیظ نعمانی

ملک کے وزیر داخلہ شری امت شاہ نے مولانا کلب جواد نقوی سے 23  جولائی کو ایک ملاقات میں وعدہ کیا تھا کہ حکومت ماب لنچنگ کے خلاف سخت قانون بنائے گی۔ مولانا کلب جواد نے سنی صوفی علماء کے ساتھ وزیر داخلہ سے ملاقات میں ان کو ملک میں ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر توجہ دلائی تھی۔ ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر ملک کے ہر شعبہ میں تشویش محسوس کی جارہی ہے۔
49 دانشوروں، ادیبوں اور فلم سازوں نے ایک مشترکہ خط وزیراعظم کو لکھا ہے۔ اس خط پر جن حضرات کے دستخط ہیں وہ نہ مسلم لیگ کے انڈے بچے ہیں نہ پاکستان کے ایجنٹ اور نہ جمہوریت مخالف عناصر۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کا جو بھی جواب دیا جاتا وہ وزیراعظم یا اُن کے آفس کی طرف سے آتا لیکن مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ مسلمانوں، دلتوں اور اقلیتوں سے متعلق جو بھی کہا جائے گا وہ ان کی ذمہ داری ہے اس لئے انہوں نے ان دانشوروں کو بھی ان سیاسی کھلاڑیوں میں شامل کرلیا جو وزیراعظم کی پارٹی سے لڑکر الیکشن ہار چکے ہیں اور اپنا غم غلط کرنے کیلئے مسلمانوں اور دلتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیر اقلیتی امور نقوی صاحب نے اس خط کے ڈانڈے مودی جی کی پہلی حکومت کے زمانہ میں حالات سے رنجیدہ ہوکر جو دانشوروں نے اپنے ایوارڈ لوٹائے ان سے ملا دیئے اور اپنے نزدیک سب کو ایک ہی تھیلی کا چٹہ بٹہ قرار دے دیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ جو لوگ لوک سبھا الیکشن کی ہار سے ابھی باہر نہیں نکل پائے ہیں وہی مجرمانہ وارداتوں کو فرقہ وارانہ واردات قرار دے رہے ہیں۔
حکومت کی یہ سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ فرقہ وارانہ حرکت کو مجرمانہ واردات کی چادر میں ڈھکنا چاہتی ہے جن وارداتوں پہ سب رنجیدہ ہیں ان میں ایک تو گائے ہے اگر کوئی مسلمان گائے خرید کر لئے جارہا ہے تو وہ یا تو اسے کاٹے گا یا بنگلہ دیش اسمگل کردے گا۔ اور اگر بھینس کا گوشت اپنی دُکان کے لئے لایا ہے تو تحقیق کے بغیر اسے گائے کا قرار دے دینا اور پھر اسی کو بنیاد بناکر گوشت لانے والے کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کو یا اگر کوئی کسی غیربچہ کے سر پر ہاتھ رکھ دئے تو اسے بچہ چور بتاکر اسی طرح مار ڈالنے یا فرضی چوری کی واردات میں الجھاکر اسے باندھ کر مارا جائے یا بولو جے شری رام جے ہنومان اور اتنا مارا جائے کہ وہ مرجائے تو یہ کیوں فرقہ وارانہ نہیں اور مجرمانہ ہوسکتی ہے۔
وہ زمانہ کانگریس کا ہو یا اس کے علاوہ کسی پارٹی کا یا بی جے پی کا اس کے مسلمان وزیروں کو اپنے محکمہ کے کام کے علاوہ دھوبی کا کام بھی کرنا پڑتا ہے اور یہ وہی فریضہ ہے کہ فرقہ واریت کو مجرمانہ بتانا بھی ان کے فرائض میں داخل ہے۔ اُترپردیش کے سون بھدر کے قتل عام کو کیا مجرمانہ واردات کہا جاسکتا ہے؟ اور یہ کتنا بڑا ظلم ہے جس کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ ظالم مارے بھی اور رونے بھی نہ دے۔ اتنے بڑے حادثہ کے بعد اس کی ذمہ داری اس کانگریس حکومت کے سر ڈالی جائے جس کی ہڈیاں اور راکھ بھی نہیں ملے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ خود گئے اور ان کی جان کی تلافی تو کوئی کر نہیں سکتا لیکن نقصان کی تلافی رقم سے کرنے کی کوشش کی لیکن یہ تسلیم نہیں کیا کہ اترپردیش کی حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔
فرقہ واریت کا جہاں تک تعلق ہے اس کے بارے میں مختار عباس نقوی کیا صفائی دیں گے وہ خود اس کا شکار ہیں۔ بی جے پی جو جن سنگھ کی دوسری شکل ہے کیا وہ یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ وہ صرف اپنے فرقہ پر ہی پورا قبضہ چاہتی ہے۔ اگر 2019 ء کے الیکشن میں باہر کی یا سائنس کی دراندازی کی کہانیوں پر اعتماد نہ کیا جائے تو کون کہہ سکتا ہے کہ پورا الیکشن پلوامہ اور بالاکوٹ کے عمل اور ردّعمل کے علاوہ اور کس بات پر لڑا گیا؟ اور مختار عباس نقوی یا شاہ نواز حسین کو اگر وزیر بنایا جاتا ہے تو صرف اس لئے کہ حج اوقاف اور تین طلاق جیسے مسائل جو پارٹی کے نہیں ملک کے مسائل ہیں وہاں کسے بٹھائیں گے۔ اور جہاں تک ان سے ہوسکتا ہے وہ کسی مسلمان کو ٹکٹ نہ دے کر اعتراف کرلیتے ہیں کہ ہمیں بس ہندو ووٹ مل جائیں ہم آرام سے اس سے حکومت بنالیں گے۔ اور ہمیں بس حکومت کی ضرورت ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

28جولائی2019(فکروخبر)

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے