کرناٹک میں سیاسی ڈرامہ ڈراپ سین کیا ہوگا؟

عبدالعزیز 

    2018ء میں کرناٹک میں اسمبلی کا الیکشن ہوا تھا۔ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر کامیاب ہوئی تھی۔ کانگریس اور جے ڈی ایس اگر چہ الیکشن میں ایک دوسرے کے مقابل رہے لیکن غیر بی جے پی سرکار بنانے کیلئے دونوں میں اتحاد ہوگیا۔ اتحاد سے پہلے ہی بی جے پی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود اپنے ریاستی گورنر کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی، لیکن اسمبلی کے فلور پر اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے برعکس کانگریس اور جے ڈی ایس کی ملی جلی سرکار کے وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی اپنی اکثریت فلور پر ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ چند ایم ایل اے ہی کانگریس اور جے ڈی ایس کے اتحاد میں زیادہ تھے۔ جس کی وجہ سے حکومت کی بنیاد انتہائی کمزور تھی۔ بی جے پی کی سیاست حکومت کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہی تھی اور خدشہ یہ تھا کہ کسی وقت بھی بی جے پی کرناٹک کی حکومت کو گراسکتی ہے۔ کئی بار بی جے پی نے حکومت بننے کے بعد گرانے کوشش کی مگر ناکام رہی۔ لیکن اس وقت جو صورت حال ہے وہ موجودہ حکومت کیلئے انتہائی پیچیدہ اور سنگین ہے۔
     کانگریس کے دس اور جے ڈی ایس کے تین ناراض ایم ایل اے ممبئی چلے گئے ہیں اور وہاں کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے بڑے لیڈروں سے ان کا رابطہ ہے۔ وہ سب کے سب بی جے پی کی طرف مائل ہیں۔ حالانکہ ان کو منانے کی ہر ممکن کوشش کانگریس اور جے ڈی ایس کی طرف سے ہورہی ہے۔ حکومت کو یا اتحاد کو اس وقت دوسرا جھٹکا لگا ہے۔ دو آزاد ایم ایل اے ایچ ناگیش اور آر شنکر کے اتحادی حکومت سے منحرف ہونے پر ان دونوں نے حکومت سے حمایت واپس لے لی ہے۔ 224 ممبران کی اسمبلی میں اتحادی حکومت کے ایم ایل اے کی تعداد 103ہوگئی ہے جبکہ بی جے پی کو 107 ایم ایل اے کی حمایت حاصل ہے۔ 13 ایم ایل اے کو حکومت میں شامل کرنے کیلئے حکومت کے تمام وزراء نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ منحرف ممبرانِ اسمبلی کو وزارت میں شامل کرنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔
     اس سے پہلے بی جے پی کی تمام کوششوں اور سازشوں کے باوجود کرناٹک کا سیاسی اتحاد کامیاب ہوگیا تھا لیکن اس وقت اپنوں کی بے وفائی اور کانگریس اور جے ڈی ایس کی غلط حکمت عملی اور پالیسی اتحاد کو ایسا لگتا ہے کہ لے ڈوبے گی۔ اتحاد کے خیمے میں مشکلات اس وقت سے پیدا ہوئیں جب سے دو آزاد ایم ایل اے کو حکومت میں شامل کیا گیا۔ کانگریس کے اور جے ڈی ایس کے سینئر ممبروں کو اس پر سخت اعتراض ہوا۔ اتحاد کو چاہئے تھا کہ اگر شامل کرنا ہے تو سینئر لیڈران سے جو ایم ایل اے ہیں ان سے مشورہ کرنا جو نہیں کیا گیا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ بی جے پی پورے ساز و سامان کے ساتھ حکومت پر حملہ آور ہے۔ مرکز اور گورنر بی جے پی کی حامی ہیں۔ بی جے پی کے ممبران اسمبلی کی تعداد دونوں پارٹیوں کے منحرف ممبروں کے سپورٹ سے بڑھ گئی ہے۔ اسپیکر کا تعلق اتحاد سے ہے، اس کی کارروائی پر اب سب کی نظر ہے کہ وہ 13 ممبرانِ اسمبلی کے ساتھ جو اس وقت ممبئی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں از خود یا بی جے پی کے ذریعے رکھے گئے ہیں۔کیا رویہ اپناتا ہے۔
     کرناٹک کی حکومت کا کام بھی وہاں کے عوام کیلئے تشفی بخش نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لوک سبھا کے الیکشن میں 28سیٹوں میں سے اتحادی جماعتوں کو صرف 3سیٹوں پر کامیابی ہوئی۔ اس وقت راہل گاندھی کا استعفیٰ اور کانگریس کا بحران کچھ ایسا ہے کہ کانگریسیوں کو راس نہیں آرہا ہے۔ جو ممبران اسمبلی ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ کانگریس یا جے ڈی ایس میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے تحفظ کیلئے بی جے پی کا دامن پکڑ رہے ہیں۔ 

جس طرح مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے ایم ایل اے، کونسلرز اور لیڈران پارٹی چھوڑ چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں اسی طرح کی ملتی جلتی صورت حال کرناٹک میں بھی ہے۔
     افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ پارٹی کا ہر ایم ایل اے وزارت کا بھوکا ہے۔ پہلے وہ ایم ایل اے کے ٹکٹ کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے اور جب ایم ایل اے ہوجاتا ہے تو وزارت میں جگہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ کمزور حکومت ہوتی ہے تو جو لوگ وزیر نہیں بنائے جاتے وہ اپنی پارٹی ہی کیلئے خطرہ بنے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ بی جے پی جیسی پارٹی ایسے موقع پر روپئے کی تھیلی اور وزیر بنانے کا لالچ دینے کیلئے تیار رہتی ہے۔ ظاہر ہے جن کو کروڑوں کی تعداد میں سکہ رائج الوقت مل جائیں اور وزیر بنا دیا جائے تو آخر کیسے اسی سے ملتی جلتی پارٹی میں رہ سکتے ہیں؟ جمہوریت اب ہندستان میں ایک مذاق سی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ دستور اور قانون کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا جارہا ہے۔ یہ لوگ جو عوام کا  نمائندہ چن کر جاتے ہیں وہ عوام کی خدمت کے بجائے اپنی اور اپنے خاندان والوں کی ترقی اور تجارت کیلئے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان نمائندوں کی عوام میں عزت و اکرام کیسے ہوسکتی ہے؟ لیکن عوام مسائل و مصائب سے جوجھ رہے ہیں اس لئے وہ بھی مجبور ہیں کہ ان کے نمائندے بھلے ہوں یا برے ہوں اپنے مسائل کے حل کیلئے ان کے پیچھے پیچھے دوڑیں۔ کرناٹک میں کیا ہوگا کہنا مشکل ہے۔ لیکن بی جے پی کا پلڑا بھاری ہے۔ اگر 13 ایم ایل اے اپنی پارٹی میں واپس نہیں آئے تو کرناٹک کی موجودہ حکومت گرسکتی ہے۔ اس طرح سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوسکتا ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

 

«
»

انسانی ترقیاتی میں اخلاق وروحانیت کا کردار

کانگریس خاتمے کے قریب مگر متبادل کیا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے