جنسی درندگی کاواحد علاج پھانسی

ڈاکٹر اسلم جاوید 

گذشتہ دنوں بچیوں کی آبروریزی اور قتل کی کئی خبریں ایک ساتھ پڑھ کر روح کانپ گئی۔ان میں زیادہ تربچیاں 4سے لیکر9سال کی تھیں جبکہ اس طرح کے سنگین جرائم کوانجام دینے والے کم عمر لڑکوں سے لیکر35سال تک کے لوگ تھے۔یہ صرف جنسی جرائم نہیں بلکہ انتہائی گھناؤنی ذہنیت اورحد درجہ کی حیوانیت ہے اور جس قسم کاتشدد اورخطرناک رویہ ان حادثات میں دیکھا گیا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہرگلی میں سائیکو پیتھ گھوم رہے ہیں۔حال میں ہی چند جرائم مدھیہ پردیش کے شہروں میں ہوئے ہیں جہاں جنسی درندوں کیلئے موت کی سزا کا اہتمام ہے۔اس کے باوجود جنسی جرائم گھٹنے کے بجائے بڑھ رہے ہیں جودراصل ہمارے نظام کی ناکامی ہے۔ایسے واقعا ت بڑے شہروں میں بھی ہورہے ہیں جہاں مجرم کے ساتھ مظلوم بھی رہتے ہیں جوتیزی سے بدلتے ہوئے سماج کو اجاگر کرتے ہیں اورحالات اس وقت اورزیادہ خراب ہوجاتے ہیں جب اسے طبقاتی یافرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتاہے جیسا کہ جموں کشمیر کے کٹھوعہ میں بچی کے ساتھ ہوئی حیوانیت کے معاملے میں ہوا۔قصورواروں نے مقامی پولیس کورشوت دیکر ثبوت ضائع کردئے تھے لیکن عدالت نے دودھ کادودھ اورپانی کا پانی کردیا۔انصاف کوایسی ہی رفتار دیگر معاملوں میں بھی دکھانی ہوگی اوراس کے ساتھ ہی سماجی اورتعلیمی پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں علیگڑھ کے ٹپل میں ایک معصوم بچی کے قتل اوربھوپال میں 10سال کی بچی کی آبروریزی جیسے واقعات نے پورے ملک کوشرمسار کردیاہے۔اجین اور جبل پور میں بھی دومعصوموں کی آبروریزی ہوئی۔یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ جنسی درندے کس قدربے خوف ہوچکے ہیں۔ٹپل قصبے میں کچھ لوگوں نے مل کر پڑوس کی ہی ڈھائی سال کی معصوم بچی کے ساتھ جس قسم کی حیوانیت کاثبوت دیا وہ رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے اوریہ یقین نہیں ہوتاکہ 10ہزار روپے کے قرض سے سلسلے میں کوئی شخص اس طرح بے رحمی کا ثبو ت دیتے ہوئے کسی بچی کی جان لے سکتاہے۔ملزم اورمظلوم کے گھر آ س پاس ہی ہیں۔دونوں خاندانوں میں دوستی تھی تبھی تو لڑکی کے باپ نے اسے قرض دیاتھا لیکن بے عزتی کاانتقام لینے کیلئے اس نے جس طرح معصوم بچی کے ساتھ بربریت کاثبوت دیا وہ حیران کن ہے۔مجرموں کواس بربریت کی سخت سے سخت سزاملنی چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی مخلوط آبادی والے علیگڑھ کے اس قصبے کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کاماحول بھی برقرار رہنا چاہئے کیونکہ یہ علاقہ ہم آہنگی اوربھائی چارے کیلئے جاناجاتاہے۔
    جموں کشمیر کی کٹھوعہ کی خانہ بدوش بکروال قبیلے کی ایک آٹھ سال کی بچی کی عصمت ریزی کے بعد بہیانہ اندازمیں قتل کے معاملے میں پٹھان کوٹ کی عدالت نے 6ملزموں کو قصوروار قرار دیکر سزا سنائی ہے جس سے انصاف کاپرچم بلند ہواہے۔ڈیڑھ سال پہلے جنوی 2018میں اس بچی کو اغواکرکے اس کے ساتھ جوحیوانی سلو ک کیاگیااس کا کسی مہذب سماج میں تصور نہیں کیاجاسکتا۔حد تویہ ہے کہ اس گھناؤنے جر م میں کچھ پولیس والے بھی شامل تھے۔اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد اسے فرقہ وارانہ اورسیاسی رنگ دینے کی نہ صرف کوشش کی گئی بلکہ ملزموں کوشہہ دینے اوران کی حمایت میں جلوس میں شامل ہونے کی وجہ سے ریاست کی اس وقت کی بی جے پی،پی ڈی پی حکومت کے دو وزراء کواستعفی بھی دینا پڑا تھا۔معاملہ یہاں تک پہنچا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس معاملے کی سماعت پڑوسی ریاست پنجاب کے پٹھان کوٹ میں منتقل کرنی پڑی تھی۔عدالت نے اہم ملزم سانجھی رام،دیپک کھجوریا اورپرویش کمار کوعمر قید(25سال تک)کی سزا دی ہے۔تین پولیس اہلکاروں کوثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا قصور وار پائے جانے پر پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے اورایک ملزم کوعدالت نے بری کردیاہے۔
15صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کے مطابق گذشتہ سال 10جنوری کواغوا کی گئی معصوم بچی کو کٹھوعہ ضلع میں ایک گاؤں کے مندر میں باندھ کر رکھا گیا اورا س کی آبروریزی کی گئی اورجان سے مارنے سے پہلے چار دن تک اسے بے ہوش رکھاگیا۔اس کی لاش 17جنوری کوملی اورپوسٹ مارٹم میں اجتماعی آبروریزی اورقتل کی تصدیق ہوئی لیکن اس کے بعد جوکھیل شروع ہوااس نے سماج کی پول کھول کر رکھ دی۔ایک طبقہ متاثرین کے ساتھ ہمدردی جتانے کے بجائے پورے معاملے کو جھٹلانے میں لگ گیا اوربے شرمی کے ساتھ اس نے ملزموں کا دفاع شروع کردیا۔چارج شیٹ سامنے آتے ہی اس پرسوال اٹھائے جانے لگے۔کچھ وکیلوں نے چارج شیٹ کو غلط ٹھہراتے ہوئے معاملے کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ انہوں نے چارج شیٹ داخل کرنے پہنچی کرائم برانچ کی ٹیم کوعدالت پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی۔ایک سیاسی پارٹی نے کھلے عام ملزموں کے حق میں مہم چھیڑ کراسے ہندو مسلم کا معاملہ بنادیا۔حدتواس وقت ہوئی جب بی جے پی پی ڈی پی حکومت کے دووزیر بھی اس میں کود پڑے جن کی بعد میں حکومت سے چھٹی کرنی پڑی۔بالآخر 7مئی 2018کویہ سپریم کورٹ نے یہ کیس کٹھوعہ سے ہٹاکر پنجاب کے پٹھان کوٹ میں منتقل کردیا جہاں بند کمرے میں معاملے کی سماعت گذشتہ 3جون کو پوری ہوئی۔بہرحال قصور وار وں کودی گئی سزا بے حد کم ہے۔ایسے گھناؤ نے جرم کیلئے ملزموں کوسزائے موت ملنی چاہئے تھی یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوگا یہ معاملہ ہائی کورٹ میں بھی جائے گا جہاں ممکن ہے کہ اہم ملزم سانجھی رام کوپھانسی کی سزا مل جائے اور اس کا بیٹا وشال جوبری کردیا گیاہے قانون کی گرفت میں آجائے۔بہرحال اس معاملے میں مظلوم بچی کی وکیل دیپیکا راجاوت نے بڑی بہادری اوربے خوفی کے ساتھ اس مقدمے کولڑا اورانصاف دلانے کی کوشش کی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کورٹ کوگمراہ نہیں کرپائے۔
بہرحال یہ ضروری ہے کہ جنسی درندوں کوعمر قید کے بجائے پھانسی دی جائے تبھی خوف اوردہشت سے اس قسم کے جرائم پر قابوپایا جاسکتاہے۔اگر دوچار زانیوں کوپھانسی کی سزا ہوجائے گی توا س قسم کے جرائم بہت زیادہ کم ہوجائیں گے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

18جون2019(فکروخبر)

«
»

اردو،ہندی کے اولین شاعر امیرخسرو

راہل استعفے پر بضد رہے تو کانگریس ختم ہوجائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے