عبداللہ دامودی ’’ایک شیریں سخن تھا نہ رہا ‘‘

عبداللہ دامودی صاحب کے انتقال کی خبر مجھ کو مولانا محمد ناصر صاحب اکرمی نے دی ، موصوف کی علالت کے بارے میں بھی کئی بار بتایا ، ان سے بات بھی کروانا چاہتے تھے لیکن اس کا موقع نہ مل سکا۔ عبداللہ دامودی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، وہ ایک ملنسار آدمی تھے۔ ، ہم سے شروع میں جس طرح ملے اخیر تک اسی طرح ملتے رہے ۔ ہم سے کبھی کوئی اختلافی گفتگو نہیں کی۔ مولانا محمد خالد صاحب ندوی سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ اتفاق سے مولانا ان دنوں بھٹکل میں موجود تھے اور ان کو جنازہ میں شرکت کا موقع بھی ملا۔ 
عبداللہ دامودی صاحب بھٹکل کے جلسوں میں پیش پیش رہتے ۔ خاص طور پر تنظیم اور انجمن کے جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ، وہ ایک سماجی کارکن بھی تھے ، انسانی ہمدردی ان کے اندر پائی جاتی تھی۔ موصوف کو مشاعروں کی نظامت کا سلیقہ بہت اچھا تھا اور اس کا حق خوب ادا کرتے تھے۔ شیریں زبان تھے۔ ، اور لہجہ بھی اچھاتھا۔ لکھنوی لب ولہجے میں گفتگو کرتے تھے اور برجستہ اشعار بھی سناتے تھے۔ 
موصوف جامعہ آتے رہتے تھے اور ہاں کے پروگراموں میں شریک ہوتے ، وہیں سے ان سے رابطہ پیدا ہوا ۔ تنظیم کے صد سالہ پروگرام میں شرکت کی دعوت ہم کو سب سے پہلے انہو ں نے دی اور زور دے کہا اس میں آپ ضرور شرکت کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی مغفرت فرمائے اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ 
دارِ فانی سے رخصت ہوئے بھائی عبداللہ 
اپنے احباب سے جو ہنس کے ملا کرتے تھے 
شیریں گفتار تھے اردو کے پرستار بھی تھے 
لکھنوی لہجے میں وہ بات کیا کرتے تھے

31؍ مارچ 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

«
»

کیا انتخابی میدان میں گاندھی اور گوڈسے کا مقابلہ ہے؟

سمجھوتہ بلاسٹ کیس: اگر بری ہوئے لوگ بے گناہ ہیں تو ذمہ دارکون ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے