جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی

ظفر آغا

شکر خدا کا، ابھینندن ساتھ خیریت ہندوستان لوٹ آیا! ابھینندن کی وطن واپسی سے قبل یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ہند – پاک بہت تیزی سے پھر ایک اور جنگ کی جانب گامزن ہیں۔ یوں تو ابھی بھی حالات کوئی تشفی بخش نہیں ہیں۔ اس مضمون کے لکھتے وقت بھی سرحد پر دونوں جانب سے گولہ باری جاری تھی۔ سرحد سےملے دیہاتوں سے موت کی بھی خبریں آ رہی تھیں۔ اس لئے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ جنگ کا خطرہ پوری طرح ٹل گیا ہے لیکن امید کی ایک کرن پھوٹی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ابھینندن کو ہندوستان واپس بھیج کر عقلمندی کا ثبوت دیا ہے اور تیزی سے بگڑتے حالات کو پھر سے سنبھالنے کا ایک موقع مل گیا ہے۔ لیکن کب سرحد کی کس جانب کس سے کیا لغزش ہو جائے اور ہند- پاک میں ایک اور جنگ چھڑ جائے ابھی بھی یہ کہنا مشکل ہے۔ پھر پاکستانی فوج، جس کا دار و مدار ہی ہندوستان سے جنگ پر منحصر ہے اس پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے۔

اس بار بھی شروعات دہشت گردی کے ایک واقعہ سے ہوئی۔ پلوامہ میں ایک خودکش حملے میں تقریباً پچاس ہندوستانی سیکورٹی افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس حملہ کی ذمہ داری فوراً جیش محمد نے خود اپنے سر لی۔لیکن یہ جیش محمد ہے کون ! جیش وہی دہشت گرد تنظیم ہے جس کے سربراہ اظہر مسعود ہیں۔ یہ وہی اظہر مسعود ہیں جنہوں نے کھلے عام پاکستان سے ہندوستان میں خوف و دہشت گردی کا جال بچھا رکھا ہے۔ ویسے اظہر مسعود کی کیا بساط کے وہ خود اپنے دم پر دہشت کا بازار گرم رکھ سکیں۔ یہ تو پاکستانی فوج کی پشت پناہی ہے جو اظہر مسعود جیسے درجنوں افراد کو پاکستان کی سر زمین پر دہشت کی فیکٹری چلانے میں مدد گار ہوتی ہے۔ دراصل جنرل ضیا ء الحق نے سن 1970 کی دہائی میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کی فوج کو ایک مصنوعی جنگ میں خود انہیں کی زمین پر الجھائے رکھے۔ اسی غرض سے پاکستانی فوج نے دہشت گردی کا کاروبار شروع کیا اور اسامہ بن لادین سے لے کر اظہر مسعود ، حافظ سعید تک درجنوں افراد کے ذریعہ باقاعدہ ہندوستان اور افغانستان پر دہشت گردی ایکسپورٹ کرتے رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کشمیر میں ہندوستانی فوج پچھلی تین دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف الجھی ہے اور ادھر افغانستان حکومت پاکستان کے تیار کردہ طالبان سے نبرد آزما ہے۔

الغرض، جیش محمد نے اسی پالیسی کے تحت پلوامہ میں زبردست دہشت گرد انہ حملہ کیا اور اس بار مودی حکومت نے اس کا جواب بالاکوٹ پر ہوائی حملے سے دیا ۔ اس کے بعد پاکستان نے اپنے جہاز ہماری سرحد پر بھیجے جن کو بھگانے کی کوشش میں ہمارا فوجی پائلٹ ابھینندن پاکستانی سرزمین پر جا گرے۔ اور وہ گزشتہ روز جمعہ کو سہی سلامت واپس ہندوستان لوٹ آئے۔ یعنی ہندوستان نے پلوامہ کا بدلا لے لیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ بدلے کی سیاست ہمیشہ کامیاب ہو سکتی ہے! دو ممالک کے درمیان بدلے کا نتیجہ کب جنگ کی صورت اختیار کر جائے یہ حتمی طور پر کہنا مشکل ہے ۔ اس اکیسویں صدی میں جنگ کے کیا معنی ہو سکتے ہیں یہ بھی کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بھی ہندوستان و پاکستان کے درمیان جنگ کب نیوکلیئر جنگ میں تبدیل ہو جائے یہ بھی کہنا مشکل ہے۔ پھر پاکستانی فوج کا اقتدار تو ہندوستان کے خلاف جنگوں پر ہی جاری و ساری رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی معیشت تباہ ہے۔ وہاں دہشت گرد انڈسٹری کے سوا آج تک کسی اور انڈسٹری نے کوئی ترقی نہیں کی۔ لیکن ہندوستان نہ صرف ایک کامیاب جمہوریت ہے بلکہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بھی ہے۔ ہم ترقی کر دنیا کی سربراہی کاخواب رکھتے ہیں۔ ایسے ملک کے لئے جنگ ایک تباہ کن خیال ہے۔

لیکن پھر بھی دنیا بھر میں کچھ سرپھرے افرادایسے بھی ہوتے ہیں جو نتائج کے خیال کو بنا جنگ جیسے خطرناک ہتھیار کے استعمال کا شور مچاتے رہتے ہیں۔ ان دنوں ہندوستان میں اس کام کا ٹھیکہ ہمارے ٹی وی چینلوں نے لے رکھا ہے۔ آپ ٹی وی کھولیے اور بس دو منٹ بعد آپ خود جذبات سے اس قدر لبریز ہو جائیں گے کہ آپ کا دل چاہے گا کہ تلوار اٹھاکر پاکستانی سرحد پر پہنچ جائیں ۔ لیکن قوموں کی تقدیر اس قسم کے ٹی وی چینلوں سے نہیں بنتی ہے۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو دوراندیشی سے سوچ کر کام کرتی ہیں۔ اور دوراندیشی اور ہوشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہند- پاک کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہونی چاہیے۔

لیکن جنگ ہو یا نہ ہو یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور یہ سیاسی فیصلہ کسی پارٹی کے مفاد میں نہیں بلکہ ہمیشہ ملک کے مفاد کو مد نظر رکھ کر ہی کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ فیصلہ کبھی کسی پارٹی کے ذاتی مفاد میں بھی ہوسکتا ہے ۔ اس اعتبار سے ہندوستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگلے آٹھ دس دنوں کے اندر ہندوستان میں اگلے لوک سبھا چناؤ کی تاریخوں کا اعلان ہو جائے گا۔ برسراقتدار پارٹی بی جے پی کے لئے صورت حال کوئی بہت شاندار نہیں ہے۔ نوٹ بندی، بے روزگاری، جی ایس ٹی ٹیکس کی مشکلات اور دیہی علاقوں میں پھیلی بے اطمینانی جیسے مسائل سے نریندر مودی کی ساکھ کو گہرا دھکا لگا ہے۔ پلوامہ حملہ سے قبل نریندر مودی وہ مودی نہیں رہ گئے تھے کہ جن کے دم پر بی جے پی سن 2019 کا لوک سبھا چناؤ جیتنے کی پوری امید کر سکتی۔ لیکن سنگھ پریوار اور مودی دونوں کا خیال یہی ہے کہ ہندوستان کو باقاعدہ ایک ہندو راشٹر بنانے کے لئے مودی کو دوبارہ برسراقتدار واپس آنا ضروری ہے ۔ اس اعتبار سے پاکستان کےساتھ جنگ بی جے پی کو پھر اقتدار تک پہنچا سکتی ہے۔ کیونکہ جنگ سے پیدا ہونے والے جذبات ایک ایسا پل ہے جس پر عوام کو چلا کر ان کو ان کے مسائل بھلائے جا سکتے ہیں۔

کسی بھی برسر اقتدار پارٹی کے اقتدار میں واپس لوٹنے کا یہ آسان راستہ ہو سکتا ہے۔ پھر نریندر مودی تو نفرت کی سیاست کے بادشاہ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نفرت کی سیاست نے ہی مودی کو مودی بنا دیا۔ سن 2002 میں گودھرا میں ہندو کارسیوکوں کے مارے جانے کے بعد گجرات میں جو مسلم نسل کشی ہوئی اس کا سیاسی فائدہ اٹھا کر مودی پہلے ہندو ’انگ رکشک‘ اور پھر ’ہندو ہردے سمراٹ ‘ بن گئے۔ اور وہی ہندو ہردے سمراٹ سن 2014 میں ہندوستان کا وزیر اعظم بن بیٹھا۔ گجرات فسادات سے وہاں جو مسلم منافرت پھیلی اسی لہر پر سوار ہو کر مودی نے ایک ہندو قد آور لیڈر کی حیثیت حاصل کی اور اس طرح وہ تین بار گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے۔ اسی طرح پاکستان کے خلاف جنگ کے بعد ملک میں پاکستان کے خلاف منافرت کا جو سیلاب پھیلے گاوہ مودی کو پھر وزیر اعظم بنا سکتا ہے اس لئے بی جے پی کے لئے پاکستان کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل کا سیاسی فائدہ حاصل کرنا ناممکن بات نہیں ہو سکتی۔

لیکن ملکوں اور قوموں کی ترقی کسی سیاسی پارٹی کے مفاد پر نہیں منحصر ہوتی ہے۔ ہندوستان اپنے پڑوس پاکستان کے مقابلہ میں ایک مختلف ملک ہے ۔ ہمارے یہاں فوجی مفاد ملک کا مفاد نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان کی ترقی کا راز یہی ہے کہ یہاں سیاسی جما عتیں ملک کے مفاد میں فیصلے کرتی رہیں ۔ کم از کم ابھی تک ز یادہ تر مواقع پر ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ مثلاً ممبئی میں پاکستان دہشت گرد حملے کے با وجود منموہن سنگھ حکومت نے تمام تر عوامی دباؤ کے با وجود پاکستان کے خلاف جنگ کا قدم نہیں اٹھایا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سن 2008 میں جب امریکی معاشی بحران کے بعد دنیا بھر میں معاشی مسائل پیدا ہوئے اس وقت ہندوستان کی معیشت ان حالات سے متاثر ہوئے بغیر ترقی کرتی رہی اور منموہن حکومت کے دور میں ہندوستان کی معیشت نے 8 فیصد جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا ریکارڈبنایا۔

بحر کیف ہندو پاک اس وقت خطرناک دور سے گزر رہے ہیں ۔ ہندوستان کے حق میں یہی ہے کہ جنگ ٹل جائے۔ گو جنگ بر سر اقتدار سیاسی پارٹی کے حق میں ہو سکتی ہے لیکن ملک کے مفاد میں نہیں ہے کہ جنگ ہو ۔ اس لئے پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کو سیاسی فائدے کے لئے قطعی استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اور پھر دنیا کی کوئی بھی جنگ کبھی بھی انسانیت کے حق میں نہیں ثابت ہوئی ہے ۔ اسی لئے ساحر لدھیانوی نے سال 1965 میں ایک نظم لکھ کر سب کو آگاہ کیا تھا کہ’ جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے ‘۔ اس وقت ساحر کی اسی نظم کا آخری حصہ بہت یاد آ رہا ہے، جو پیش خدمت ہے ۔

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

جی ہاں، ابھی بھی جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )

03مارچ2019

«
»

میکدۂ علم وعشق: دارالعلوم وقف دیوبند

گھر گھر دلت مسلم اتحاد پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے