گھر گھر دلت مسلم اتحاد پارٹی

حفیظ نعمانی

ہندوستان میں دلت مسلم اتحاد ایک بیماری کی طرح پھیل گیا ہے جس مسلمان کو قیادت کا کیڑا کاٹ لیتا ہے وہ دلت طبقہ کی کسی بھی برادری کے دو پڑھے لکھے جوانوں کو ساتھ کھڑا کرکے فوٹو چھپواتا ہے اور دلت مسلم اتحاد نام کی پارٹی بنا لیتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر سنجیدگی سے کسی نے کام کیا ہے تو وہ آنجہانی کانشی رام تھے انہوں نے سب سے پہلے گاندھی جی کے دیئے ہوئے نام ہری جن کو مسترد کیا اور کہا کہ ہم ہری کے بیٹے نہیں دلت ہیں۔ ان سے پہلے گاندھی جی ان کو محبت میں ہری جی کہتے تھے اور ہری جن نام کا اخبار ہی نہیں نکالتے تھے بلکہ جس بستی میں دو چار دن گذارتے تھے اسے ہری جن بستی کہا جاتا تھا۔
اور یہ ان کی ہی انسانیت نوازی تھی کہ سابرمتی آشرم میں بیت الخلاء نہیں تھے بلکہ بڑی تعداد میں لٹیاں اور کھرپی رکھی رہتی تھیں جسے ضرورت ہوتی تھی وہ ایک لٹیا اور ایک کھرپی لے کر باہر کھیتوں میں چلا جاتا تھا۔ یہ گاندھی جی کا ہی کارنامہ تھا کہ انہوں نے انسان کی غلاظت کو انسانوں کے ذریعہ اٹھانے کی مخالفت کی اور سب سے پہلے اپنی بیوی سے مورچہ لینا پڑا۔ اور کانگریس نے ہری جن لیڈروں کو آگے کیا اور حکومت میں شامل کیا یہ گاندھی جی کا ہی کارنامہ ہے ورنہ تاریخ میں آج بھی لکھا ہوا مل جائے گا کہ ممبئی میں صفائی مزدوروں کے گلے میں ہانڈی ٹنگی رہتی تھی کہ وہ عام راستوں میں نہ تھوکیں اور کمر میں جھاڑو بندھی رہتی تھی کہ قدموں کے نشان مٹتے چلے جائیں۔ اور یہ بھی گاندھی جی کا ہی احسان ہے کہ ان کا ہری جن جیسے مایاوتی کے سامنے برہمن گھٹنے ٹیکتا ہے اور مسلمان ان سے ٹکٹ مانگتا ہے اور ہر کسی کی زبان پر بہن جی اور ان کو سلام کے لئے نمستے نہیں کہتا جے بھیم کہتا ہے۔
2017ء میں جب اترپردیش کا الیکشن ہورہا تھا تو ایک صاحب کو جو اپنے کو مسلمان کہتے تھے نام بھی ایسا ہی تھا صورت بھی ان کی سی ہی بنالی تھی انہوں نے دلت مسلم پارٹی بنائی اور ایک اخبار کے جس کا شمار بڑے اخباروں میں ہوتا تھا اس کے پہلے پورے صفحہ پر اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کیلئے مسلمانوں سے اپیل کرتے تھے اور پورے صفحہ میں اپنا فوٹو اپنے بیٹے کا فوٹو چھاپتے رہے پھر ان کو دو تعلیم یافتہ دلت مل گئے ان کے بھی فوٹو چھاپ دیئے اور دلت مسلم پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ کی اپیل کرتے رہے لیکن یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ ان کے امیدوار کہاں ہیں اور کون ہیں؟
دلت مسلم کا سبق پڑھنے والے اویسی صاحب نے بھی ٹکٹ بانٹنا شروع کردیئے اور جسے سماج وادی یا بہوجن سماج کا ٹکٹ نہیں ملا اسے اویسی صاحب نے ٹکٹ دے دیا۔ ہماری اطلاع کی حد تک جیتا تو کوئی نہیں لیکن بی جے پی کے اُمیدوار کا راستہ یا صاف ہوگیا یا آسان ہوگیا اب پھر خبر چھپی ہے کہ دلت مسلم اتحاد سے دونوں پارٹیاں خوفزدہ دلت مسلم ایک اتحاد تو مایاوتی کا ہے دوسرا ایک پارٹی اور ہے اور تیسرا اسدالدین اویسی کا ہے۔ انہوں نے ممبئی میں تقریر کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے بانی جناح صاحب کا تعلق ممبئی سے تھا ہندوستانی مسلمانوں نے ان کی اس اپیل کو جو پاکستان ہجرت کے لئے تھی مسترد کردیا تھا اور کروڑوں مسلمانوں نے ہندوستان میں ہی قیام کا فیصلہ کیا۔
ہم نہیں جانتے کہ اسدالدین اویسی اس وقت کہاں تھے جب پاکستان بن رہا تھا عالم بالا میں تھے ماں کے پیٹ میں تھے یا گودوں میں کھیل رہے تھے۔ مسٹر جناح نے اپنی زبان سے ہجرت کا لفظ شاید زندگی بھر نہ بولا ہے اور کسی نے بھی ہجرت کی اپیل نہیں کی۔ مسلم لیگ میں اس وقت بھی اتنے ہی کم عقل لوگ تھے جتنے ملک میں مسلمانوں کی سیاست کرنے والے اب ہیں سب یہ بات جانتے تھے کہ پاکستان سے جو آئیں گے وہ تعداد میں بہت کم ہوں گے اور جانے والے کہیں زیادہ اس لئے کہ جن علاقوں میں پاکستان بنے گا وہاں ہندو بہت کم ہیں اور جو علاقے ہندوستان میں رہیں گے وہاں مسلمان بہت ہیں۔ اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد موجودہ پاکستان کے برابر ہے اور پاکستان میں ہندو نام کے لئے ہیں اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی مخالفت 93 فیصدی سے زیادہ علماء دین نے کی اور کوئی نہیں بتاسکتا کہ پاکستان نہ جانے والے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والے ہم جیسے مسلمان حکومت کی ہر امداد سے محروم ہیں اور جو ہندو آئے ہیں انہوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا جبکہ جو مسلمان ہجرت کے فریب میں پاکستان گئے وہ ہم ہندوستانیوں سے زیادہ پریشان ہیں۔
پورے ملک میں مسلمانوں کی کوشش تھی کہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہونے پائیں اسی لئے ہم جیسوں نے کانگریس سے کہا تھا کہ ہر جگہ ٹانگ نہ اَڑائیں ہم ان کی اُترپردیش یا بنگال میں دخل اندازی کو رو رہے تھے کہ حیدر آباد سے مودی جی کی دعائیں لے کر اسدالدین اویسی پھر کود رہے ہیں اور ٹکٹ کے بیماروں کو ٹکٹ بھی دیں گے اور گلا پھاڑکر تقریر کا تحفہ بھی۔ حیدر آباد کے ہی ایک مخلص نے ہم سے کہا ہے کہ یہ وصیت ان کے والد مرحوم کرگئے ہیں کہ مسلمانوں کو متحد نہ ہونے دینا خدا حیدر آباد والوں کو سلامت رکھے وہ منصف میں ہی ہمارے مضمون پڑھتے ہیں اور دعا دیتے ہیں اور انہوں نے ہم سے کہا ہے ہم ایک ایک بات بتا دیں گے۔ ہماری کسی سے لڑائی نہیں ہے نہ ہم کسی پارٹی کے بندھے ہوئے ہیں بس یہ چاہتے ہیں کہ دلاّ ل بن کر مسلمانوں کے ووٹ منتشر نہ کرو اگر کروگے تو ہم خدائی فوجدار ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

27فروری2019۰

«
»

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی

آتنکی حملے کیوں ہوتے ہیں؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے