بزرگ والدین کے ساتھ ہمارا سلوک

تجمل حسین

اسلام نے والدین کے کتنے مراتب وحقوق رکھے ہیں یہ بات معاشرے میں کسی سے مخفی نہیں اور اولاد پر جو حقوق ان کے ہیں وہ بھی واضح طور پربیان کر دیے ہیں اور ان کی تعظیم وتوقیر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی حالت نماز نفل میں ہو اور اسی دوران والدین میں سے کوئی ایک اسے پکارے تو ضروری ہے ک وہ اپنی نفل نماز کو ترک کرکے والدین کی جناب میں حاضرہو۔مزیر اگر ہم قرآن واحادیث ک مطالعہ کریں تو والدین کے حقوق کی اہمیت کاصحیح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کتنے پیارے انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں ارشاد ربانی ہے ’’اور ماں باپ کے ساتھااچھا سلوک کرو ،اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں ،نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا‘‘(سورۃ بنی اسرآئیل/آیت ۲۳) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بار بار تذکرہ آیا ہے والدین کا بڑا مقام ہے اور یہ مقام اللہ تعالیٰ نے خود طے کر دیا ہے والدین ہی حسن سلوک و آداب واحترام کے سب سے زیادہ حقدارہیں۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں‘‘۔ یعنی اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پالوگے اور اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذا ء رسانی کرکے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔
والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بے پناہ تاکید کے پس منظر میں ضرور یہ سوال پیدا ہوگا کہ والدین اگر کافر و مشرک ہوں، یا وہ کفر و شرک اورخلافِ شریعت امور کا حکم کریں، ایسی صورت میں وہ راضی و خوش رہیں تو ایسی صورت میں اولاد کا کیا رویہ ہونا چاہیئے؟ اس حوالے سے بھی کتا ب و سنت میں واضح رہنمائی موجود ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق والدین سے بڑھ کر ہے لہذا کفر وشرکت، خلاف شریعت کام اور اللہ کی ناراضی والے امور میں والدین کی یا کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں۔ اسی طرح والدین کے کفر و شرکت کے باوجود دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک، ان کا ادب و احترام اور ان کی خدمت و فرمانبرداری ضروری ہے۔ اسلام اس سے منع نہیں کرتا بلکہ اس کی ترغیب دیتا اور تاکید کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے '' اور اگر دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تُومیرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو، تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے، تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا۔''(لقمان /آیت۱۵ )
اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب واحترام کرنا چاہئے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہئے جب وہ بوڑھے ہوجائیں کیونکہ وہ بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے اللہ تعالیٰ نے خود اس کی وضاحت اپنی کتاب میں فرمائی ہے ’’اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا(بنی اسرائیل/آیت ۲۴)
اسلام نے سب کچھ ہمارے لیے بیان کر دیا ہے اور والدین کی نافرمانی کے سلسلے میں سزائیں بھی مقرر کر دی ہیں لیکن ان سب کے باوجو د اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو بہت افسوس کے ساتھ یہ نتیجہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر اولاد اپنے بزرگ والدین کی نافرمان ہی نہیں بلکہ ان کو ایذا رسانی میں مبتلا ہیں بہت سے والدین کو تو گھر سے بھی بے گھر ہونا پرتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی اولاد کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں مغرب کے اکثر ممالک اور ہمارے ملک کے کافی شہروں میں تو بیت عجائز کے نام سے ایک محکمہ ہی شروع ہو گیا ہے جس میں اولاد اپنے والدین کو داخل کر کے سکون سمجھتے ہیں ٹائمس آوف انڈیا کی خبر کے مطابق ہندوستان میں ۱۵ /ملین بزرگ، جو ۶۰ /سال پار کر چکے ہیں ،تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور بہت سے بزرگ والدین ایک وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج ہیں ۔ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے کہ اگر ہمارا یہی رویہ اپنے بزرگ والدین کے ساتھ رہا تو وہ دن دور نہیں کی ہمارے خلف پر اپنے والدین کی تعظیم سے بالکل ہی غافل رہیں گے اور معاشرہ والدین کی دعاؤں کے بغیر ترقی کی راہ پر بھی گامزن نہیں ہو سکتا۔
لہٰذا اگر ہم اس قضیہ کی تحلیل کر یں کہ حقوق والدین کی رعایت لازم ہے تو یہ نتجہ نکلتاہے کہ حقوق والدین کی رعایت کرنا انسا نیت اور فطرت کا تقاضا ہے کیونکہ ماں باپ اولاد کے وجود میں علت کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذااپنی تمام تر توانائی اور جوانی اولاد کی فلاح وبہود اور پرورش میں صرف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تا کہ اولاد جوان اور صحت مند نظر آئے اور بڑھاپے میں کچھ سہارا بن سکے لہٰذا ان کے حقوق کو ادا کرنا حقیقت میں ایک قرضہ ادا کرنے کی مانند ہے جو ہمارے ذمہ ہے اس کو ادا کرنے کے نتیجہ میں کل ہمارے بچے بھی ہمارے حقوق کی رعایت کریں گے ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں۔ 
17؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 
 

«
»

اب دیکھو کیا دکھائے نشیب و فراز دہر

مرثیہ بروفات : استاد گرامی قدرحضرت مولانا سید واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے