وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے ایک لذیذ و شیریں اور دوسرا تلخ و شور

ترتیب: عبدالعزیز

اللہ تعالیٰ سورہ فرقان میں فرماتا ہے: ’’اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور۔ اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انھیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔ 
اس خدا کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔ 
اے محمدؐ؛ تم کو تو ہم نے بس ایک مبشر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔ ان سے کہہ دو کہ’’میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہی اپنے رب کا راستہ اختیار کرلے‘‘۔ (الفرقان، آیات:53 تا 57)
یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں آکر گرتا ہے۔ اس کے علاوہ خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی) اپنی کتاب مرأۃ الممالک میں جو سولہویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے، خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہاں آبِ شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں، جن سے میں خود اپنے بیڑے کیلئے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداءً وہ بھی خلیج فارس کے انہی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود لئے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہ میں آبِ شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ 
یہ تو ہے آیت کا ظاہری مضمون جو اللہ کی قدرت کے ایک کرشمہ سے اس کے الٰہ واحد اور رب واحد ہونے پر استدلال کر رہا ہے مگر اس کے بین السطور سے بھی ایک لطیف اشارہ ایک دوسرے مضمون کی طرف نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی معاشرے کا سمندر خواہ کتنا ہی تلخ و شور ہوجائے، اللہ جب چاہے اس کی تہ سے ایک جماعت صالحہ کا چشمۂ شیریں نکال سکتا ہے اور سمندر کے آبِ تلخ کی موجیں خواہ کتنا ہی زور مار لیں وہ اس چشمے کو ہڑپ کر جانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ 
یعنی بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوند سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بناکھڑی کرتا ہے مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نمونہ نہیں بلکہ دو الگ نمونے (عورت اور مرد) بنائے جو انسانیت میں یکساں مگر جسمانی و نفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف ہیں اور اس اختلاف کی وجہ سے باہم مخالف و متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہیں۔ پھر ان جوڑوں کو ملاکر وہ عجیب توازن کے ساتھ (جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنیٰ دخل بھی نہیں ہے) دنیا میں مرد بھی پیدا کر رہا ہے اور عورتیں بھی جن سے ایک سلسلۂ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں سے بہوئیں لاتے ہیں اور ایک دوسرا سلسلۂ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں کی بہوئیں بن کر جاتی ہیں۔ اس طرح خاندان سے خاندان جڑکر پورے پورے ملک ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ 
یہاں بھی ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ اس سارے کارخانۂ حیات میں جو حکمت کام کر رہی ہے اس کا اندازِ کار ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں اختلاف اور پھر مختلفین کے جوڑ سے ہی سارے نتائج برآمد ہوتے ہیں، لہٰذا جس اختلاف سے تم دوچار ہو اس پر گھبراؤ نہیں، یہ بھی ایک نتیجہ خیز چیز ہے۔ 
یعنی اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے احکام و قوانین کو نافذ کرنے کیلئے جو کوشش بھی کہیں ہورہی ہو ، کافر کی ہمدردیاں اس کوشش کے ساتھ نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گی جو اسے نیچا دکھانے کے درپے ہوں۔ اسی طرح اللہ کی فرماں برداری و اطاعت سے نہیں بلکہ اس کی نافرمانی ہی سے کافر کی ساری دلچسپیاں وابستہ ہوں گی۔ نافرمانی کا کام جو جہاں بھی کر رہا ہو کافر اگر عملاً اس کا شریک نہ ہوسکے گا تو کم از کم زندہ باد کا نعرہ ہی مار دے گا تاکہ خدا کے باغیوں کی ہمت افزائی ہو، بخلاف اس کے اگر کوئی فرماں برداری کا کام کر رہا ہو تو کافر اس کی مزاحمت میں ذرا دریغ نہ کرے گا۔ خود مزاحمت نہ کرسکتا ہو تو اس کی ہمت شکنی کیلئے جو کچھ بھی کرسکتا ہے کر گزرے گا، چاہے وہ ناک بھوں چڑھانے کی حد تک ہی سہی۔ نافرمانی کی ہر خبر اس کیلئے مژدہ جانفزا ہوگی اور فرماں برداری کی ہر اطلاع اسے تیر بن کر لگے گی۔ (تفہیم القرآن) 
اللّٰہ تعالٰی کی قد رت کی ایک اور نشانی: آفاق کی نشانیوں میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے ایک حیران کن کرشمے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس پروردگار کی بے پناہ قدرت کا کیا کہنا کہ وہ ایک طرف سے شیریں پانی کے دریا کو چھوڑتا ہے، دوسری طرف سے کھاری پانی کے سمندر کو۔ دونوں کی موجیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں لیکن کیا مجال ہے کہ شیریں پانی کھاری ہوجائے یا کھاری پانی شیریں بن جائے۔ دونوں اپنی اپنی حدود کے اندر اپنی مزاجی خصوصیات کو باقی رکھتے ہیں۔ یہ کیفیت ہر اس جگہ دیکھی جاسکتی ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں آکر گرتا ہے، لیکن کیا مجال ہے کہ دریا کا پانی سمندر کے پانی میں مل جائے یا سمندر کا پانی دریا کے پانی کو کھاری بنا دے۔ دریائے نیل جب بحر روم میں جاکر گرتا ہے تو کئی میلوں تک اس کا پانی سمندر میں جوں کا توں چلا جاتا ہے نہ اس کی رنگت بدلتی ہے نہ اس کا ذائقہ تبدیل ہوتا ہے۔ زمین کے نیچے پانی کا سمندر بہہ رہا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ایک جگہ سے پانی نکالا گیا تو پانی میٹھا نکلا، پھر دوسری جگہ چند فٹ کے فاصلہ پر نلکا لگایا گیا تو پانی کھاری نکلا۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے نیچے بھی قدرت نے کوئی ایسی غیر مرئی دیوار کھینچ رکھی ہے جو میٹھے اور کھاری پانی کو آپس میں ملنے نہیں دیتی۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود سمندر میں مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے۔ تفہیم القرآن میں سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی) اپنی کتاب مرأۃ الممالک میں جو سولہویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے میں خود اپنے بیڑے کیلئے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں۔ 
موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداءً وہ بھی خلیج فارس کے ان چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود لئے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا۔ 
غور فرمائیے اللہ تعالیٰ کے سوا وہ کون سی طاقت ہے جو زیر زمین اور سمندروں کے اندر میٹھے پانی کے ذخیروں کو کڑوے پانی سے الگ رکھتی ہے۔ وہ کون قادر مطلق ہے جس نے ان کے درمیان ایسی غیر مرئی دیوار کھڑی کر رکھی ہے جو نہ کسی کو نظر آتی ہے اورنہ دونوں کا باہمی تصادم اس کو توڑ سکتا ہے۔ اس سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک اللہ تعالیٰ کی بزرگ و برتر ذات ہے جس کے زیر تصرف کائنات کی ہر چیز ہے، وہ اپنی مشیت سے اپنی حکمت کے مطابق جو چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ وہیں اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس کائنات میں جتنے بھی اضداد ہیں سب ایک بالاتر حکیم و قدیر کے قبضۂ قدرت میں ہیں، وہ جس کو جس حد تک چاہتا ہے ڈھیل دیتا ہے اور جس جگہ چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ وہ خدا کی مقررہ حدود سے سرمو تجاوز کرسکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں کوئی چیز اور کوئی قوت مطلق العنان نہیں بلکہ سب کی باگ ایک بالاتر قوت کے ہاتھ میں ہے۔ (جاری۔

«
»

افریقہ کے الفت کدے میں

مدارس میں میڈیا کی تعلیم: وقت کی اہم ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے