مولانا اسرارالحق قاسمیؒ

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

دنیا کی زندگی فانی اور ناپائیدار ہے، ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی، موت سے کسی کو چھٹکارہ نہیں ہے، ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس جہان ِ فانی میں ہر روز بے شمارانسان آتے ہیں اور ان گنت لوگ رخت ِ سفر باندھ کر چلے جاتے ہیں، کہیں کسی کے آنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں تو کہیں کسی کے جانے پر غم والم برپا ہوجاتا ہے، کوئی اپنے گھر کوویران کرجاتا ہے توکوئی پورے علاقے کو داغ ِ جدائی دے جاتا ہے، کسی کے جانے سے چند لوگ آہ بکا کرتے ہیں تو کسی کاجانا ایک دنیا کو حزن وملال میں مبتلا کردیتا ہے اور اس ایک انسان کے جانے سے عالم سُونا سوُنا ہوجاتا ہے، اور خداجانے کتنے لوگ اس کی جدائیگی سے بے قرارہوجاتے ہیں۔

انسان اپنی خوبیوں اور کمالات کی بنیاد پر جانا پہنچاجاتا ہے اور یاد کیا جاتا ہے، انسان تو دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کے کارنامے اور خدمات ہمیشہ یاد رہ جاتی ہیں۔ چناں چہ 7ڈسمبر 2018ء بروز جمعہ صبح سے یہ خبر گشت کرنے لگی کہ قوم وملت کے بے لوث خادم حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ کا انتقال ہوگیا۔ اچانک پیش آنے والے اس حادثہ ٔ جان کاہ پر یقین نہیں آیا، بلکہ ہر کسی کو اس کے سچ ہونے پر تذبذب تھا، کیوں کہ بظاہر پہلے سے کوئی بیماری یاناسازی کی اطلا ع نہیں تھی، لیکن بہرحال اس کی تصدیق ہوگئی کہ رات جلسہ سے خطاب کرنے بعد صبح کے 3:30بجے وقت ِ تہجد مولانا اسرارالحق صاحب ؒ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے، نمازِ تہجد کی تیاری کرلی لیکن مالک ِ حقیقی کا بلاواآگیااور دل کے دورہ(ہارٹ اٹیک) نے رو ح کے جسم سے رشتے کو تو ڑکر بندہ کو رب کے پاس پہنچادیا۔ زندگی کی تمام تر توانائی، حیاتِ مستعار کے شب وروز کو مسلسل قوم وملت کی بے لوث خدمت کرتے کرتے اور آخر وقت تک پیغام ِ حق سناتے سناتے دنیا کے ہنگاموں سے دور، آرام وراحت کی ابدی نیند سوگئے۔ جہد ِ مسلسل اور عمل ِ پیہم کا عنوان بن کر، سادگی وتواضع کا بے مثال نمونہ چھوڑکر، امت کی فلاح وبہبودی کے منصوبے دے کر، ملت کو زیور ِ علم سے آراستہ کرنے کی انتھک محنت کرکے، قریہ قریہ، دیہات دیہات علم کے چراغ روش کرکے، نئی نسل کو بلندیوں، کامیابیوں پر پرواز کرتادیکھنے کے خواب آنکھوں میں سجاکر، اعلی عہدہ ومنصب پر فائز ہونے کے باوجودزاہدانہ و درویشانہ زندگی گزارکر، تقریر وخطابت، وعظ ونصیحت کے ذریعہ ملت ِ اسلامیہ کو پیغام حق سناکر، قرطاس وقلم کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے تک صدائے حق پہنچاکر، اپنی یادوں، عظیم قربانیوں اور ناقابل فراموش خدمات اور کارناموں کو چھوڑکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔

 

حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ میں اللہ تعالی نے بہت سے خوبیاں اور کمالات رکھے تھے، وہ دین وشریعت، سیاست وقیادت دونوں کے جامع تھے، وہ بیک وقت عالم ِ باعمل، درجنوں مدارس کے سرپرست وذمہ دار، مختلف ملکی تنظیموں کے رکن، سلوک واحسان میں شیخ ومربی بھی تھے اور میدان سیاست میں ممبر آف پارلیمنٹ بھی، انہوں نے سیاست اور شریعت کو بڑے خوبصورت انداز میں جمع کرکے بتایا اور اپنے کردار وعمل سے ہر دومیدان میں قوم کی خدمت کرتے رہے۔ آپ کا اچانک انتقا ل یقینا قوم وملت کا عظیم خسارہ ہے۔ مدتو ں بعد ایسے لوگ پیداہوتے ہیں کہ جن کے تذکرے عزم وہمت کو جلا بخشتے ہیں اورجن کی باتوں سے کمزور ارادوں میں نئی جان اورمضمحل فکر وعمل میں تازہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ کی خصوصیات اور ان کے مختلف کارناموں پرقلم کار، اہل تعلق روشنی ڈالیں گے، لکھیں گے اور ان شاء اللہ ان کی زندگی کے سبق آموز پہلوؤں سے امت کو باخبر کریں گے۔ اس مختصر تحریر میں ہم ان کی’’ تحریری‘‘ خدمات پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر اردو اخبار پڑھنے والا جمعہ کے دن اور اس کے علاوہ میں بھی وہ ضرور کسی نہ کسی اخبار میں حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ کے نہایت مفید مضامین سے استفادہ کرتا رہاہے، نگاہوں کے سامنے عرصہ ٔ دراز سے ایک نام ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کئے رہا۔ اور لوگ ان کی تحریروں اور گراں قدر مضامین کے شیدائی رہے۔ ملک کے بیشتر اخبارات، دینی رسائل اور مجلات مولانا کے قیمتی مضامین سے آراستہ رہتے۔ بلاشبہ آپ ’’قرطاس وقلم ‘‘ کے ’’تاج دار‘‘ تھے۔ آپ نے اپنی خدمات کے لئے جن سنگلاخ میدانوں کا انتخاب کیا تھا وہ بظاہر تحریر اور کچھ لکھنے کا موقع نہ دینے والے تھے بلکہ آپ خود تصور کیجیے کہ جس کی زندگی کی صبح و شام سیاست کی پر خوار وادیوں میں گزرتی ہو اور جو ہر وقت کہیں نہ کہیں کے لئے پابہ رکاب رہتا ہو بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بلاناغہ مضامین کا سلسلہ بھی جاری رہے ؟کیوں کہ جو لکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لکھنا کس قدر یکسوئی اور تنہائی طلب کام ہے، کہاں میدان ِ سیاست کے شوروہنگامے، کہاں اسفار کی گہماگہمی اور کہاں لکھنے پڑھنے کا کام؟لیکن یہ کرامت ہے مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ کی کہ لکھنا ان کی زندگی کی آخر سانس تک جاری رہا، اور قابل ِ رشک و حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ دنیا سے چلے گئے لیکن جاتے ہوئے بھی انہوں نے اپنا ہفتہ واری مضمون لکھا، اور جمعہ کے دن ابھی ان کی نمازِ جنازہ بھی نہیں پڑھی گئی لیکن دنیا کے کونے رہنے والوں نے آپ کا آخری مضمون پڑھ لیا۔ جمعہ 7ڈسمبر کو روزنامہ انقلاب ممبئی میں آپ کا مضمون بعنوان ’’وراثت ِ انبیاء کا تقاضا ہے کہ علماء اپنے اندر احساسِ ذمہ داری پیداکریں ‘‘شائع ہوا۔

 

مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ کی صحافتی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے معروف قلم کار مولانا نایاب حسن قاسمی لکھتے ہیں کہ:’’مولانا کی خدمات کا ایک روشن پہلو تقریبا نصف صدی کو محیط ان کی انقلاب آفریں اور مجاہدانہ صحافتی زندگی ہے۔ مولانا نے دارالعلوم میں قیام کے دوران ’’سجاد لائبریری ‘‘ کے آرگن ماہنامہ’’البیان‘‘سے جو اپنا صحافتی سفر شروع کیا تھا، اس نے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر ادنی سا اضمحلال نہیں آنے دیااور دیگر بہت سی سیاسی، سماجی وملی سرگرمیوں اور ذمے داریوں کو بہ احسن وجوہ نبھانے کے ساتھ قرطاس وقلم سے اپنی راہ ورسم نہ صرف باقی رکھی ؛بلکہ اس حوالے سے اپنی علیحدہ شناخت بنائی۔ جمعیت سے وابستگی کے دوران اس کے ترجمان ہفت روزہ ’’الجمعیۃ‘‘کی ادارت کی، ایک عرصے تک ’’ملی آواز‘‘نئی دہلی کے مدیر اعلی رہے، اور فی الوقت ملک کے طول وعرض سے شائع ہونے والے بیشتر اخبارات کے مولانا مستقل کام نگار ہیں۔ ( دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ :227)

اسی طرح ممتاز قلم کارمولانا نسیم اختر شاہ قیصر رقم طراز ہیں کہ:ان کی تحریریں تو وقت کا آئینہ ہیں، یہ آئینہ گرد وغبار سے صاف ہے، ہر تحریر صاف ستھری اور نتیجہ خیز، معمولی سی معمولی بات کو اور چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو بھی ان کی سحر نگاری کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے۔ ۔ ۔ ان کی تمام تحریروں میں جہاں ان کے دل کا درد جاگتا ہے وہیں مثبت فکر اور اخلاق وکردار کی سلامتی بھی بنیادی عنصر ہے، وہ زندگی کی دھوپ چھاؤں اور سرد وگرم حالات میں امیدوں کے پھول بکھیرتے مایوسیوں کے اندھیروں کو پیچھے دھکیلتے ہیں۔ ( جانے پہنچانے لوگ:58)

 

حضرت مولانااسرارالحق قاسمی ؒ کو پہلی مرتبہ دیکھنے اور سننے کا موقع 2008ء میں ملا، دارالعلوم دیوبند کی مشہور انجمن ’’بزم ِسجاد ‘‘ کے جلسہ میں آپ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور اس وقت آپ کے ولولہ انگیز بیان، اکابرین دارالعلوم کی عظیم خدمات پر فکر انگیز تقریر اور طلباء میں عزم وحوصلہ کی روح پھونکنے والی خطابت سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ جب کہ اس سے پہلے سے آپ کو پڑھنے اور ہر اخبار میں آپ کے نام کو دیکھنے کا برابر موقع ملتا رہا۔

آپ کی رحلت سے جہاں بہت سے میدانوں میں اندھیراچھاگیا وہیں بالخصوص تحریر وصحافت کی دنیا میں غم والم بپاہے، کیوں کہ آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ نے تمام میدانوں کے ساتھ تحریروصحافت میں بھی اپنی فکر وفن کے چراغ روشن کئے، اور آپ نے آخر دم تک لکھنے کو اپنا محبوب مشغلہ بنائے رکھا۔ ورنہ دنیا کے ہنگامے، ملی وسماجی کام قلم کاروں سے قلم کے ہتھیار کو چھین لیتے ہیں اور اس کی تمام تر تحریری صلاحیتوں کو ختم کردیتے ہیں، لیکن حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ نے نوجوانوں کو، علماء کو اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو یہ سبق دیا کہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ مختلف طبقات کو فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے، اللہ نے جس کوجو صلاحیت دی ہے اس کا مسلسل استعمال اس کو زندگی اور ترو تازگی عطا کرتا ہے، اور بالخصوص قلم ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے تک اپنے پیغام کو، اپنے دردِ دل کو پہنچایا جاسکتا ہے، انسان دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کی تحریریں، اس کی کتابیں، اس کے مضامین علم وادب کی دنیا میں ہمیشہ زندہ وتابندہ رہتے ہیں اور زمانہ کبھی ایسے لوگوں کو فراموش نہیں کرتا۔ ان شاء اللہ حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ کی صحافتی خدمات بھی یاد رکھی جائیں گی اور آپ کی تحریروں سے، کتابوں سے امت فیض یاب ہوتی رہے گی۔

 

  اللہ حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی ؒ کے درجات بلند فرمائے، ان کی قومی، ملی، دینی خدمات کو قبول فرمائے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:09ڈسمبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

تلنگانہ میں ٹی آر ایس کامیاب مہاکوٹمی ناکام ۔ کیوں۔؟

کیا وزیراعظم نے بھانپ لی ہے شکست؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے