جیتنے والا گھوڑا لاؤ کی لعنت نے ملک کو تباہ کردیا

حفیظ نعمانی

آزادی کے وقت عام لوگوں میں سیاسی شعور اس لئے نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت میں زندگی گذار رہے تھے جو ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے ان انگریزوں کے ہاتھ میں تھی جن کے اور ہمارے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اور یہ بھی نئی بات تھی کہ اتنا بڑا ہندوستان جس کی آبادی اس وقت 36 کروڑ تھی اسے ایک دن میں ہی آزادی ملنا تھی اگر قسطوں میں آزادی ملتی اور پہلے مغربی حصہ آزاد ہوتا پھر سال دو سال کے بعد شمالی ہوتا تو مشرقی اور جنوبی حصہ میں آباد لوگ وہاں کے لوگوں سے یہ معلوم کرلیتے کہ انہوں نے حکومت کا نظام کیسا بنایا؟
ہندوستان اور پاکستان جب دو ملک ایک ایک دن کے فرق کے ساتھ آزاد ہوئے تو ہندوستان میں انگریزوں کی بنائی ہوئی پارلیمنٹ کی عمارت اور گورنر جنرل کے لئے عالیشان محل نیز پارلیمنٹ کے ممبروں اور وزیروں کے لئے کوٹھی اور مکان کچھ تو بنے ہوئے موجود تھے اور جن کے لئے نہیں تھے ان کو ہوٹلوں میں کمرے دلادیئے گئے اور دوسری صبح سے حکومت کا کام شروع ہوگیا۔ اسی زمانہ کا ایک واقعہ سنانے کے لئے یہ لکھنا پڑا کہ وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو جو دنیا کے وزیروں اور وہاں کی پارلیمنٹ کے ممبروں کو دیکھ چکے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں زیادہ تر ممبر اُن کپڑوں میں بیٹھے ہیں جن کو پہن کر وہ سوئے تھے اور صبح کو اٹھ کر چلے آئے ہیں تو پنڈت نہرو نے کہا کہ آپ لوگ صبح نہا دھوکر دوسرے کپڑے تو پہن لیا کیجئے اس کے بعد ہاؤس میں آیئے۔ اور پاکستان کے بارے میں یہ حقیقت ہے کہ 13 اگست کو مسٹر جناح اور مسلم لیگ کے تمام بڑے لیڈر دہلی سے کراچی چلے گئے جہاں سے انہیں پاکستان کی حکومت چلانا تھی۔ وہاں ایک دن کے بعد 14 اگست کو رات کے 12 بجے ملک کو آزاد ہونا تھا لیکن نہ وہاں کوئی عمارت تھی نہ کمرہ تھا نہ کرسی تھی نہ میز نہ قلمدان۔ بریلی سے گئے ہوئے بچپن کے ہمارے کئی دوستوں نے بتایا کہ ایک بڑے میدان میں فوجی چھولداریاں لگادی گئی تھیں اور شامیانے لگادیئے گئے تھے جن میں بیٹھ کر ہم لوگ دفتر کا کام کرتے تھے۔ اور وزیروں کے لئے بھی خیمے لگادیئے گئے تھے جن میں کولر تھے۔
ابھی اس آزادی کو صرف 70 سال ہوئے ہیں اور یہ خبر آگئی کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور کانگریس کے دفتر کے سامنے فورس لگادی گئی ہے۔ اور وجہ یہ ہے کہ جسے ٹکٹ نہیں دیا جاتا وہ غنڈوں کو لے کر آتا ہے اور آفس میں گھس کر کرسیاں اور میزیں توڑتا اور آگ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ان کی ہی اولاد ہیں جن سے پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ رات کے پہنے ہوئے کپڑوں میں اٹھ کر پارلیمنٹ نہ آیا کریں۔ یہ وہ تھے جنہوں نے ٹکٹ مانگا نہیں تھا بلکہ پارٹی نے دیا تھا۔ اور اس زمانہ میں ہم نے کئی لوگوں کے بارے میں سنا کہ جب ان کو ٹکٹ دیا گیا تو انہوں نے لینے سے انکار کردیا کہ ان کو دوسرے کاموں کی وجہ سے فرصت نہیں ہے۔ اور یہ تو نہ جانے کتنے لوگوں کے بارے میں اخبارات میں چھپاکر انہوں نے تیسری بار یہ کہہ کر ٹکٹ لینے سے انکار کردیا کہ اب بڑھاپا ہے سائیکل سے حلقہ کا دورہ نہیں ہوتا اور سب کے کام نہیں کراپاتے۔ اب کسی جوان کارکن کو دے دیا جائے اور ایسے بھی بڑے عالم دین جن کے لاکھوں ماننے والے تھے انہوں نے دوسری بار ٹکٹ لینے سے انکار کردیا اُن کا عذر یہ تھا کہ وہاں صرف وقت برباد ہوتا ہے۔
آخر یہ کون لوگ ہیں جو ٹکٹ کو اپنا دیا ہوا قرضہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات 1967 ء سے شروع ہوئی ہے کہ لوگ ٹکٹ کی درخواست دینے لگے اس سے پہلے ضلع سے نام آجاتا تھا یا پارلیمنٹ کا امیدوار اسمبلی کے پانچ ممبروں کے نام خود دیتا تھا یا جب ان کو بتایا جاتا تھا تو وہ ان میں سے جس ممبر کو بدل کر دوسرے کو دلوانے کا مشورہ دیتے تھے ان کو دے دیا جاتا تھا۔ بات صرف یہ ہے کہ پارٹی کے صدر خود بن جاتے ہیں اور وہ پورے صوبہ کے ایسے لوگوں سے واقف نہیں ہوتے جو مخلص ہوں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر ہر علاقہ کے بااثر لوگ اپنے آدمیوں کو ٹکٹ دلواتے ہیں یا ان سے ٹکٹ کا سودا کرتے ہیں۔ اگر پارٹی کے عہدیداروں کو عوام منتخب کرتے تو پھر ان کو حق ہوتا کہ وہ جس سے جو کام لینا چاہیں وہ ان کے سپرد کرتے جیسے یہ آپ اسمبلی میں پارٹی کی ترجمانی کریں گے، آپ کسانوں میں پارٹی کا تعارف کرائیں گے، آپ کارخانوں اور فیکٹریوں کے مزدور کو بتائیں گے کہ ہماری پارٹی کیا ہے، آپ کالجوں اور اسکولوں کے ٹیچروں میں کام کریں گے اور آپ کاروبار والوں اور دُکانداروں میں کام کریں گے۔ کسی ورکر کو یہ حق کیسے مل گیا کہ مجھے اسمبلی بھیجو یا وزیر بناؤ؟
ہندوستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں ہر ناراض آدمی نے ایک پارٹی بنالی ہے اور آئندہ بھی لوگ ناراض ہوتے رہیں گے اور پارٹی بنتی رہے گی۔ یہ بات الیکشن کمیشن کے بھی سوچنے کی ہے کہ ایک ایک صوبہ میں کتنی پارٹیاں بنوائیں گے؟ اگر رجسٹریشن کی یہ شرط رکھی جائے کہ 50 اسمبلی کے ممبر اور 13 لوک سبھا کے ممبر ہوں تو اسے رجسٹرڈ کیا جائے گا تو کچھ لگام لگے۔ اترپردیش میں سیکڑوں پارٹیاں ہیں وہ نسیم الدین صدیقی جو برسہابرس مایاوتی کے ساتھ رہے اُن کے درمیان اختلاف ہوا تو نسیم صاحب نے اپنی پارٹی بنالی اور ملائم سنگھ کے بھائی شیوپال اپنے بھتیجے سے ناراض ہوئے تو انہوں نے کسی کی مدد سے اپنی پارٹی بنالی۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ان دونوں سے کہا جاتا کہ 10 برس کام کرو اپنے بل پر الیکشن لڑاؤ بعد میں ہمارے پاس آنا۔ پارٹی کی رکنیت کی ایک شرط یہ بھی ہونا چاہئے کہ وہ ٹکٹ نہیں مانگے گا۔ اور پارلیمنٹری بورڈ میں ہر ضلع کا ایک آدمی ہوگا جو ڈھونڈکر اُمیدوار لائے گا۔ اور ایک کمیٹی ہوگی جو ہر ضلع کا سروے کرکے اُمیدواروں کے بارے میں معلومات کرے گی اس کے بعد جسے ٹکٹ دیا جائے گا سب اس کی مدد کریں گے۔ اور اگر جیتنے والا گھوڑا لاؤ والی لعنت چلتی رہی تو شریف آدمی اسمبلی میں کیا پارلیمنٹ میں نہیں ملے گا اور مودی جی کی طرح داغی ممبروں کو گلے میں لٹکائے رہنا پڑے گا۔(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
04؍نومبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

ہاشم پورہ: انصاف کہاں ملا، اصل مجرم کہاں ہیں؟

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے