ڈاكٹر محمد حسین فطرت، فن اور شخصیت

تحرير :  سيد ہاشم نظام ندوی

نئے ہجری سال چودھ سو چالیس كا آغاز، محرم الحرام كا پہلا عشرہ، دسویں محرم الحرام كے تاریخ ساز دن كے استقبال میں یہودیوں كی مخالفت كرتے اور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے ارشادات كی تعمیل میں نویں محرم كی شب روزہ داروں كو بھی سحری كا انتظارتھا، كہ جناب ڈاكٹر محمد حسین فطرت بھٹكلی كےبڑے  فرزندجناب عبد الودود صاحب دیر رات سفر سے لوٹے،رات دیڑھ بج رہے تھے، اپنے والدِ ماجد كے كمرہ گئے ، دیكھا تو آواز میں كچھ فرق ہے، سانس لینے كی كیفیت بھی  جدا ہے، اپنی امی جان كو آواز دی، بھائی جاوید بھی حاضر تھے ،زمزم كا پانی لایاگیا ، كلمہ كی تلقین كے ساتھ پانی حلق سے اترا ہی تھا كہ بڑی آسانی كے ساتھ دو بجے رات  آخری لمحات گزارتے ہوئے آپ كی روح قفس عنصری سے پرواز كر گئی اور ہجری اعتبار سے نواسی اور عیسوی اعتبار سےاپنی عمرِ مستعار كی چھیاسی بہاریں گزار كر رفیق اعلی سے جا ملے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔آپ كی رحلت سے قوم نوائط كا ایك سپوت رخصت ہوا، بھٹكل  اپنے قابلِ فخر فرزند سے محروم ہوگیا اورآسمانِ علم و دبستان اردو ادب كا ایك چراغ گل ہو گیا۔

پيدائش سے تعلیم وتربیت  تك:

            جناب فطرت بھٹكلی كی كتابِ زندگی کے پہلے ورق پر نظر كريں تواس پر تاريخ پيدائش ۶ /جون ۱۹۳۲ مطابق  ۱۶ صفر ۱۳۵۱ ہجری  درج ہے۔ آپ نے ہندوستان کےجنوبی علاقہ ، صوبہ كرناٹك   كے معروف شہر بھٹكل  ميں آنکھ کھولی ، پرورش اور تعليم و تربيت كا آغاز  اُس زمانے کے روايتی ماحول ميں ہوا، جہاں دینی، اسلامی  اور تہذيبی روايات کا بے حد خيال رکھا جاتا تھا۔

            کسی بھی انسان كی کاميابی کے پیچھےجہاں اس كے والدین كا كرداراہم  ہوتا ہے،  وہیں ايك اچھا اور كامياب  استاد بھی ناقابلِ فراموش  ہے ، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن كو اچھے استاد ميسر  آجائے ، ايک معمولی سےنوخيز بچے سے لے کر ايک کامياب فرد تک  كاسارا سفراچھے استاداور  كامياب مربی ہی  کا مرہون منت  ہے ، آپ كی ابتدائی قرآنی و دینی تعليم مولوی شريف محيی الدين اكرمی رحمۃ اللہ عليہ كے پاس ہوئی، ادب و انشاء ميں مولانا محمود خيال رحمہ اللہ تعالی سے خصوصی  استفادہ كیا جہاں سے  ذہنی وفکری کشادگی كے ساتھ خيالات ميں تنوع پيدا ہوا، زمانہ طالبِ علمی کا پورا زمانہ ممبئی میں گزرا ، جہاں آپ نے عصری تعليم میں ہائی اسكول ايجوكیشن پاس كیا ،اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ارود میں ادیب ماہر کے امتحان میں امتیازی نمبرات سے كامیابی حاصل كی۔

            فراغت كے بعد ہومیوپیتیك كی جزئی تعلیم حاصل كی ، ذاتی مطالعہ سے اس میں درك حاصل ہوا، اورمیڈیکل پریکٹس ایك  مدت تک جاری رہی، جو آپ كا ذریعہ معاش تھا، جس سے سبکدوشی کے بعد درس وتدریس کے فرائض انجام دیے، روزگار کے سلسلے میں کچھ سال مسقط میں بھی مقیم رہے۔

 

ذوق مطالعہ  اور ذاتی كتب خانہ :

            آغازِ شاعری ميں گوناگوں ادبی رسائل زيرِ مطالعہ رہے، مثلا " نيرنگِ خيال" ، " عالمگير" لاہور" ، " ادب ِ لطيف ۔ بمبی " ، ماہنامہ " آج كل ۔ دہلی "، " نئی زندگی ۔ دہلی " ، قومی زبان ،دہلی " وغيرہ رسائل مسلسل زيرِ مطالعہ تھے۔ سچ ويكلی كا بلا ناغہ مطالعہ نے فنی اور ادبی  آبیاری كی ، اور اس سے خوابيدہ صلاحيتوں كو اچھی طرح پھلنے پھولنے اور كروٹيں لينے كا نادر و ناياب موقعہ ہاتھ آیا، فارسی بھی طالبِ علمی كے زمانہ ہی میں  پڑھ لی تھی ،البتہ عربی سے ناواقفیت كی كمی شدت سے محسوس كر رہے تھے ، لہذا اپنے ذاتی شوق وذوق اور اردو تفاسیر كی مدد سے عربی زبان سے قدرے واقفیت  بھی حاصل كی تھی، الفاظ ومعانی كا ایك اچھا ذخیرہ بھی ذہن میں محفوظ كر لیا اور اس بات كا آپ نے با رہا اظہار كیا ہے كہ  عربی زبان كو میں نے محض قرآن فہمی كی غرض سے سيكھا تھا، تاكہ اس كے ذریعہ ادبِ اسلامی كی خدمت  كما حقہ كی جا سكے ۔الغرض  قديم وجديد ادب  اور ادباء  کو پڑھا اور ان کے ادب پاروں سےبھی  مستفيد ہوئے  اور اسی مطالعۂ کتب نےآپ كو فہم وفراست  سے نوازا۔

ساتھ ہی علم كے فروغ اور تحریر میں نكھار لانے كے لئے نثر  ميں  بابائے اردو مولوی عبدالحق ، محمد حسین آزاد ،سرسيداحمد خان، ڈپٹی نذير احمد، مولانا حالی، رشيد احمد صديقی،غلام رسول مہر ،آل احمد سرور، پطرس، فرحت اللہ بيگ كی كتابیں مرغوبِ خاطر رہیں،بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالاعلی مودودی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا سيد سلیمان ندوی،مولاناعبدالماجد دريابادی، مولانا امين حسن اصلاحی  اور  مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے تخلیقی شعور کے مداح رہے، ان کا خوب مطالعہ کیا اور ان كی تصنیفات کے مطالعے کی بدولت کسبِ علم کا شرف وامتیاز حاصل کیا ۔ اورشعراء وادباء میں اقبال، غالب، میر، جوش، جگر، ذوق، فیض،مجروح، سیماب، فراق ، احمد فراز اور سردار جعفری كے دواوین زیرِ  مطالعہ رہے۔ آپ نے صرف  زبانِ اردوكےمصنفین اور   ادباء وشعراء سے ہی كسب ِفیض نہیں كیا، بلکہ اردو كے ساتھ ساتھ انگريزی  ادباء ومصنفین سے بھی استفادہ كیا تھا بقول ان كے   انگریزی میں بالخصوص ، ورڈس ورتھ، ملٹن، شیلی، گوركی، کانٹ، كیٹس، کولرج،ملٹن،ایلیٹ،روسو ان ، ايمرسن،شیكسپیئر، سويٹ مارڈن  وغیرہ كی كتابیں زير مطالعہ ر ہیں۔ ڈھیروں ادبی وتنقیدی کتابوں اور درجنوں علمی ودینی كتابوں  کے مطالعے کے علاوہ تاریخی اور سوانحی کتابیں بھی مطالعہ میں رہتیں تھیں۔ اسی كے ساتھ ساتھ  اوائل ہی سے اپنے ذوق كی تكميل كے لئے  تفسیر عثمانی ،تفسیر حقانی، ترجمان القرآن، تفہیم القرآن اور تدبر قرآن  سے امكان بھر استفادہ كیا ۔

یقینا مطالعہ کتب کے استغراق وانہماک نےجہاں  ایک طرف مضمون نگاری میں کمال بخشا تو دوسری طرف شعر وشاعری کو جمال عطا كیا،ادبی اور علمی  چمنستانوں سے گل چینی وخوشہ چینی كا موقعہ ملا، جس سے آپ ادبِ اسلامی کے نمائندہ شاعر اور نثر نگار كی حیثیت سے سامنے آئے، آپ كی تحريريں اور اشعار ادبِ اسلامی کا بلند نمونہ ہیں،مضامیں فطرت جوآپ كے رشحاتِ قلم سے سپردِ قرطاس ہوا ہے وہ آپ كے پچاس سے زیادہ مقالات ومضامین كا مجموعہ  ہے، جسے مولانا عبد الحمید اطہرندوی  نے ترتیب دیا ہے،وہ در اصل  آپ كی مطالعاتی زندگی  كا حاصلِ مطالعہ ہے ، اس كے علاوہ  ابھی درجنوں مقالات ومضامین اورعلمی  مكاتیب ورسائل ہیں  جنہیں ترتیب دینے كا اور طباعت سے مزین كرنے كا كام تشنہ تكمیل ہے ۔

آپ كو  کتابوں كا بہت شوق تھا، كتابیں خرید كر پڑھنا پسند فرماتے تھے ، اس لیے پرانی كتابیں بیچ كر نئی كتابیں خریدتے، جب اس سے فارغ ہوتے تو اسے پھر بیچتے، اگر انتہائی اہم یا نایاب ہوتیں تو اپنے پاس ركھتے ،يہاں تک کہ تھوڑے ہی دنوں میں كافی كتابیں جمع ہو جاتیں پھر ان كتابوں  كو آدھی یا اس سے كم قیمت پر فروخت كرتے ، ان كتابوں كو بیچ كر كبھی الحجاز ایجنسی سے تو كبھی بذریعہ ڈاك نئی كتابیں طلب فرماتے۔ اور كبھی بعض كتابیں احباب كو ہدیہ میں دیتے ۔

امامت سے  درس وتدريس تك :

علوہ مسجد ميں دو سال سنہ 1962 تك امامت فرمائی ،اسی مسجد میں تفسیر وحديث كے يوميہ دروس ہوتے تھے ، ان دروس كو شروع كرنے میں مولانا محمود خیال كا مشورہ نہیں بلكہ حكم شامل تھا، تعلیمی زندگی كا آغاز  سب سے پہلے ۱۹۵۵ميں بورڈ اسكول بھٹكل ميں دینیات كے ٹيچر كی حيثيت سے تقرری سے ہوتا ہے ، اس كے بعد انجمن اسلامیہ ہای اسكول ميں ايك عرصہ تك جناب ماسٹر عثمان حسن صاحب كے دورِ اہتمام ميں استاذ دینیات كی حيثيت سے خدمات انجام دیتے رہے ، پھر كچھ  وقفہ تك اپنے كو تدریس سے الگ ركھا، صرف كتب بینی اور شعر وشاعری میں اپنے كو وقف  كر دیا  ، پھر كچھ عرصہ بعد دوبارہ انجمن میں اردو كے استاد كی حيثيت سے  خدمات انجام دینے لگے ۔

شاعری او رفنی خصوصيات:

            آپ شائقِ علم شروع سے ہی تھے ،  كم عمری اور صغر سنی ہی ميں اردو ادب سے وابستگی ہوئی ، چنانچہ چوتھی جماعت ميں جب حصولِ تعليم كے لئے كوشاں تھے اس وقت شعری لگن كا شرارہ شروع ہوا، اور وہیں سے شعری زندگی كا آغاز بھی ہوا،پھرذاتی محنت، كوشش ولگن كی بدولت  گرتے پڑتے جو درِ پيرِ مغاں تك پہنچے كے مصداق رفتہ رفتہ گوہرِ مقصود كو پا ليا، اور ايك كہنہ مشق استاد شاعر و اديب كی حيثيت سے اپنی پہچان كرائی ۔

            شعر و شاعری كے آغاز ميں اور ادبیات كے ابتدائی دور ميں دہلی سےنكلنے والےہفتہ وار جريدہ "پيج ویكلی" ، زيرِ ادارت تلوك چند محروم والدِ ماجد جگن ناتھ آزاد اكثر زيرِ مطالعہ رہا ، كلامِ  اقبال، غالب، میر، جوش، جگر، ذوق، فیض، مجروح، سیماب، فراق ، وغیرہ سے  ادبی ذوق كی آبياری كی۔ فطرت صاحب نےبھی فن شعر و ادب كے سفر ميں كاميابی سے ہمكنار ہونے   میں اچھے اور بلند پایہ  اساتذہ پائے تھے ،شروع دور ميں مولانا محمود خيال ، تو بعد میں  شعر كی اصلاح کے لئے جناب ابو بكر مصور  كی شاگردی،  اور جناب مصور  فن شعر كا وہ عالی نسب استاذ تھا جس نے داغ دہلوی اور احسن مارہروی  کے خرمن شعر سے خوشہ چينی  ہی نہیں بلکہ زانوے تلمذبھی تہ كیا تھا ، اس طرح فطرت صاحب كا ادبی شجرِ نسب داغ دہلوی سے جا ملتا ہے، يعنی فطرت جيسا شاعر خود رو پودے كے مانند نہیں تھا بلكہ وہ اعلی شعری نسبت ركھتا تھا، بالفاظِ ديگر ۔

نامی كوئی بغير مشقت نہیں ہوا             سو بار جب عقيق كٹا ، تب نگيں ہوا

            اسی لئے آپ كی شاعری ميں وہ ناياب گنجينہ اور عظيم ترين خزانہ پايا جاتا ہے  جو ارباب فن و ادب اور اصحابِ علم وفضل سے داد وتحسین حاصل کر چکاہے،جس كی شہادتيں نامور معاصرین اور قدر آور مصنفین وناقدین كے رشحاتِ قلم سے نكلی ہوئی گرانمايہ تحريروں ميں موجود ہیں، اور كیوں نہ ہو جبكہ آپ کے کلام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ آپ ايك  سند يافتہ اور قادر الکلام شاعرہیں ، عاميانہ رنگ سے بہت دور ہیں، كبھی بہت بھاری الفاظ کو سلیس زبان ديکر پيکرجمال ميں ڈھال دينے كا ہنر ركھتے ہیں ،اسی طرح  اس  بات کابھی بين ثبوت پايا جاتا ہے کہ آپ نے بنيادی اور اہم شعراء  کاخوب  اور گہرامطالعہ كیا ہے،انکےتخليقی  کارناموں پرغور كیا  ہے، پھر کہیں جا کر بہترين شاعر كے روپ ميں ظاہر ہوئے۔

آپ  كی شاعری پاكیزہ خيالات اور شائستگی کا نمونہ ہے، اس ميں روايت كی پاسداری بھی ہے اور جديد رجحانات يا مغرب كے مثبت اقدار كی بھی حوصلہ افزائی كی گئی ہے۔ يوں کہیے کہ ان کا کلام جديد و قديم کا حسين امتزاج ہے۔ انہوں نے فکروفن کے اظہار ميں نہايت  سلیقے سے کام ليا ہے۔ شاعری میں علامہ اقبال اور کلامِ غالب سے ایک وجدانی تعلق رہا، علامہ كے رنگ میں رنگنے كی كافی كوشش رہی، ايك وہ دور تھا جب فطرت نے اپنی شاعری کو بے لگام چھوڑ ديا  تھا جو حالی،داغ دہلوی ،مومن ،مير اور ان جيسےبہت سے شعراء كی صفوں کو چيرتے ہوئے اقبال كے  شانہ بشانہ کھڑے رہنے ميں اپنی پوری صلاحيت صرف فرمائی تھی، اور يہیں پر آپ كی شاعری کا حسين امتياز پايا جاتا ہے، جس كا اظہار آپ كئی ملاقاتوں اور خصوصی  موقعوں پر كر چكے ہیں۔ فطرت كے اشعار ميں اقبال كا رنگ وآہنگ موجود ہے، معانی كی  گہرائی اور گيرائی پائی جاتی ہے، كبھی  زندگی كے نشيب وفراز كی حسين عكاسی  ہے، تو كبھی زندگی كے حقائق كا بہترين نقشہ پايا جاتا  ہے، ان كے غزل ميں ايك اندارِ دلبری اور طرزِ دلربائی ہے، جذبات اور احساسات كا حسین و خوبصورت خزانہ موجود ہے ،اشعار ميں خالص تعميری ادب كی روح جھلكتی ہے ، آپ كے قلم سے اصلاحی اشعار نكلتے ہیں، بلكہ صحيح معنوں ميں ادبِ اسلامی كا پرتو ہے۔

             الغرض آپ كی شاعری كے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے، كہ جس طرح اكثر وبيشتر شعراء كے يہاں ادوار كی تقسيم كی جاتی ہے ، اسی طرح آپ كی شاعری بھی انہی ادوار سے گزری ہے، جس كی تعیین  كے لئے ابھی اچھا خاصہ وقت دركار ہے، اس كے لئے اختصاصی مطالعہ چاہئے ، اور ہميں يقين ہے كہ آنے والااديب، مورخ  يا مبصر تمام دواوينِ فطرت كو  یكجاكرنے كے بعد اپنے دقيق مطالعہ كی روشنی ميں اس كی يقينی نہیں تو تقريبیی تعیین   ضرور كر سكے گا۔ آپ نے جن جن صنف  ادب  ميں لكھا ہے ان ميں غزل، نظم، مرثيہ شامل ہیں، ساتھ ہی طالبانِ علوم دینیہ اور عصريہ كے آخری سالوں كے الوداعی نظموں اور اسكول ومدراس كا ترانوں كا وافر حصہ بھی ہے،  اہم شخصيات كی بھٹكل آمد كے موقعوں پر لكھی گئی استقباليہ نظموں اور خاص خاص موقعوں ومناسبت ميں كہی گئی نظموں كا مجموعہ حد شمار سے باہر ہے،اور رہے شادی كے سہرے يا دعوت ناموں كے لئے لكھے گئے قطعے تو ان كوبھی كون كہاں تك شمار كر سكتا ہے ۔

            البتہ آپ كے آخری دور كی شاعری ميں وہ رنگ نہیں رہ سكا جو عنفوانِ شباب اور ايامِ انقلاب كا تھا، جس ميں آپ نے بڑی كھٹن بحر اور سخت سے سخت زمين پر بھی پايہ كے اشعار لكھے ،غزل نما ترانے كہے ،البتہ معیار كی كمی بھی ایك طبعی بات تھی، جس ميں آپ كی ضعیف العمری اور نقاہت و كمزوری كا بھی كافی اثر پايا جاتا تھا، آپ اپنی زندگی ميں خانگی امور سے بھی دو چار ہوئے تھے لہذازندگی كے دکھ اور سکھ کے ايک حسين سنگم سے بھی آپ گزر چكے ہیں۔

            آپ كے ہنر كوسراہتے اور فن كی پذیرائی كرتے ہوئے سنہ ۱۹۸۱ كو  میں اردو اکیڈمی ریاست کرناٹک کی طرف سے گل بانگِ فطرتؔ کے حسنِ کلام پر انعامِ اول کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

حمديہ كلام  : ۔

            آپ كا مضمون بعنوان اردو شاعری ميں حمد ومناجات کے عناصر كا مطالعہ  فطرت صاحب كے نزديك اس كی اہميت كو واضح كرتا ہے ، جس ميں آپ نے حمد ومناجات كے جواہر پاروں كو مثال سے پيش كیا ہے، اور ساتھ ہی اپنا بھی كلام شكر وسپاس كے جذبات سے معمور ہو كر يوں لكھا ہے"حمد کے زير عنوان مضمون آفرينی لائق تحسین  ہے اور انداز بيان كی جدت وندرت کا جواب نہیں، حمد خواني کا ايک اعجاز يہ بھی ہے کہ الفاظ اور پيرايہ اظہار کو ايسا تقدس حاصل ہوتا ہے جو جلال وجمال کے نقش ونگار کا خالق ہوتا ہے، يہی وہ نورانی كیفیات ہیں جن سے شعور ووجدان غير معمولی احساس سے متمتع ہوتے ہیں" ۔

نعت گوئی : ۔

            نعت گوئی فنِ شاعری ميں مانندِ  پل صراط ہے ، جس میں حزم و احتياط كے ساتھ فطرت صاحب  جس طرح گزرے ہیں اس كا جواب نہبں، عام طور پر نعت گوئی ميں شرك وبدعات سے اپنے دامن كو بچانا آسان نہیں ہوتا ہے ، آپ نے اس باب ميں شرك و بدعت ہی نہیں بلكہ شائبہ شرك و بدعت سے بھی اپنا دامن پچانے كی كوشش فرمائی، اپنے نعتيہ كلام كو اس سے پاك وصاف ركھا، اپنی توحيدِ خالص ميں آنچ آنے نہیں ديا، يہ ان كی دینی  بصیرت  اور توحيد پرستی كی واضح دليل تھی ،راقم الحروف كو فطرت صاحب كے تمام عناصر ميں يہ پہلو انتہائی موثر كن رہا، اسی لئے ميں نے خواہش ظاہر كی كہ صرف نعتیہ كلام پر مستقل مجموعہ شعر مرتب كیا جائے، جسے آپ نے بے حد پسندفرمایا، " نور علی نور"  كہا اور بالآخر يہی "نور علی نور" اس نعتيہ مجموعہ كلام كا نام بھی تجويز كیا گيا۔  اس كی ترتيب  ميں آپ اور رفيقی نعمان نے بھی پورا تعاون پيش كیا، اور مكتبۃ الشباب العلميہ لكھنو سے زيورِ طبع سے آراستہ ہو كر قارئين كےقابلِ استفادہ ہوا ۔

 

 الوداعی نظميں :

            كسی کو رخصت کرتے ہوئے ہم جن كیفيتوں سے گزرتے ہیں انہیں محسوس تو كیا جاسکتا ہے ليکن ان کا اظہار اور انہیں زبان دينا مشکل ترين مرحلہ ہوتا ہے، صرف ايک تخليقی اظہار ہی ان كیفيتوں كی لفظی تجسيم کا متحمل ہوسکتا ہے بالخصوص جامعہ اسلامیہ كے الوداعی جلسوں كے لئے آپ نے جو نظميں لكھی ہیں بذاتِ خود يہی ايك خزانہ ہے، جس ميں وہ الوداعی كیفيات بھی پائی جاتی ہیں جو ايك طالبِ علم كے دل كے اندر موجزن ہوتے ہیں ، ان الوداعیوں میں  خوبصورت پیغامات ہیں ، پند و موعظت كے ساتھ ساتھ ايك عالمِ دين كے لئے زندگی كے نشيب وفراز ميں آنے والے مرحلوں كا ذكرِ جميل بھی ہے ۔

مذكورہ بالا سطروں ميں ہم نے طالبِ علمانہ كوشش كی ہے كہ اپنے استاذ مكرم جناب فطرت بھٹكلی كی زندگی اور فن شاعری كے متعلق كچھ رقم كريں ، اور اس ميں آپ كی شاعری کے مختلف پہلو پيش كیے گئے ہیں جن كو پڑھ کر يہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ آپ كی شاعری  با مقصد ہے، پر درد ہے، زندگی كی اصلاح کا لب لباب موجود ہے ،آپ  کے دل ميں قوم و مذہب کا درد پايا جاتا ہے ،آنے والی نسلوں كو زندگی سنوارنے كا نسخہ موجود ہے۔ غالبا جناب عبد الرحمن باطن صاحب نے جگر مراد آبای كے حوالے سے فطرت ہی كے بارے ميں كہا تھا

جگر نے كہديا آثار ہیں بہت اچھے           كسی زمانہ ميں سن كر ترے اشعار

 

شيخ وواعظ اور ساقی و ميخانہ  :۔

( ہم نے واعظ سے بگاڑی  ہے نہ ساقی سے كبھی (

            اردو ادب کے مختلف ادوا ر ميں جہاں مينا وجام ،ساقی وميخانہ اورحرم وبت خانہ كے الفاظ ومحاورات جا بجا مشقِ سخن ميں استعمال ہوئے  ہیں ، وہیں زاہد وواعظ، مولوی و ملااور شيخ و مولانا كے الفاظ بھی اديبوں اور شاعروں کے مشق ستم کا نشانہ بنتے رہے ہیں،پرانی شاعری ميں واعظ، زاہد وغيرہ كی اصطلاحات پر اور آج کے دور ميں مولوی  اور ملا پر ادب کے نام سے  بھپتی  کسی جاتی ہے?جس كا تعلق فكر سے  ہوتا ہے  نہ عقیدہ  سے، برتنے سے ہوتا  ہے نہ كرنے سے، بلكہ ادب كی تہذيب و روايت ميں شامل ہے ، فطرت صاحب بھی ان الفاظ و كلمات كو استعمال كرنے سے نہیں چكے ، بلكہ جہاں موقعہ ملا استعمال  اور جہاں مناسب سمجھا لكھ ديا، جس سے كبھی مولوی ناراض ہوا تو كبھی مسٹر كو غصہ آيا ، كہیں دين دار طبقہ مطعون ہوا     تو كہیں عمائدين و قائدين پر كاری ضرب پڑی ۔

            آج کے دور ميں ايسے کسی ادب پر اعتراض کئے جانے پر عموماً اردو ادب كی روايات کا حوالہ ديا جاتا ہے،مثال كے طو پر کسی زمانہ ميں دینی اور مذہبی  حلقوں سے علامہ اقبال كی بھی مخالفت  زوروں پر ہوئی، پھر كچھ عرصہ گزرنے كے بعد مجموعی طور پر اقبال کافی احترام كی نگاہوں سے ديکھے جانے لگے، ان كے اشعار سے علماء استدلال كرنے لگے۔  جبكہ علامہ اقبال كی شاعری ميں استعمال شدہ ملّا اور مجاہد كی اصطلاحات  معروف ہیں، اقبال كی شاعری ميں ملّا پر سخت تنقيد ملتی ہے اور كاری ضرب بھی ، ليکن جہاں پر بھی علامہ نے ملّا پر طنز يا تنقيد كی ہے اس کے سياق و سباق سے يہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ کس وجہ سے ملّا پر نالاں ہیں، لہذا  علامہ كی كلیات كا مطالعہ بتاتا ہے كہ آپ  کلی طور پر  ملّا کے مخالف نہیں تھے، بلكہ جہاں ان كی تعریف كی ضرورت محسوس كی تو دل كھول كر انھیں خراج عقیدت پیش كی۔اسی  تناظر ميں جب ہم كلامِ فطرت كا مطالعہ كرتے ہیں تو فطرت بھی اقبال كی فكر سے متاثرنظر آتے ہیں ، جس كی تفصيلات كسی اور مضمون ميں مثالوں كے ساتھ بيان كرنے كی كوشش كی جائے گی۔

اديب :

            جناب فطرت كو بحیثیت شاعر اس قدر شہرت مل گئی كہ ان كی دوسری ادبی اور علمی كاوشوں اور قلمی كوششوں پر پردہ پڑ گيا ، جبكہ آپ ايك كہنہ مشق استادشاعر ہی نہیں بلكہ ايك بلند پايہ اديب، ايك اچھے تبصرہ نگار، منجھے ہوئے قلم كار اور ايك ممتاز ناقد بھی تھے، ساتھ ہی ساتھ صحافت كے ميدان ميں بھی آپ نے قدم ركھا، آپ كی خطوط نگار ی بھی بھی ادبی شہ پاروں اور انشائيوں سے كم نہیں ہیں۔

تبصرہ نگاری :

            تبصرہ نگاری ایک فن ہے۔ ایك ہنر ہے،تبصرے حكومتوں پر ہوں یا حاكموں پر ، معاشرہ پر ہوں یا لوگوں پر، حالات پر ہوں یا كتابوں پر ، بہر كیف تبصرہ کائنات میں موجود ہر ہر چیز اور  ہر ہر کام پر ہوسکتا ہے۔ اور تبصرہ نگاری كو اردو ادب کی جدید ترین اصناف میں شامل كیا گیا ہے جس کے ذریعہ کسی کتاب کے بارے میں بھی بنیادی معلومات فراہم كی جاتی ہیں، فطرت صاحب نے اس میں بھی اپنے نقوش چھوڑے ہیں ، آپ كے پاس كئی ایك منظوم  تبصرے پائے جاتے ہیں، جن میں سے تقریبا نوے فیصد آپ كے پاس ہی محفوظ تھے، جسے آپ خصوصی مجلسوں میں سناتے، مگر اپنی كتابوں یا شعری مجموعوں میں اسے شامل كرنے سے گریز كرتے۔ مضامین فطرت كے مطبوعہ نسخہ میں جو تبصرے موجود ہیں ان میں جناب رشید كوثر فاروقی فكر وفن " جدید وجاوداں " كے آئینہ میں ، جناب كوثر جعفری مرحوم كےنعتیہ مجموعہ كلام  "اوج سخن "اور "موج سخن " اور محترم جناب حنيف شباب كےمجموعہ كلام  سللگتے آنسو پر لكھے گئے تبصرے بھی شامل ہیں ۔

صحافت :

            اردو ادب  كے ساتھ  صحافت جڑی ہوئی ہے ، اس کا ایک دوسرے کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ رہا ہے۔  جب اردو زبان  کمسنی کے دور سے نکل کر شعور کی منزلوں میں قدم ركھ  رہی تھی ،تو اردو صحافت کا آغاز ہوا تھا۔ جو انیسویں صدی کا بالكل ابتدائی دور تھا اور اسی زمانہ میں ،1836ءکے آس پاس  محمد باقرصاحب نے دلی سے اردو اخبار نکالا اور اکبر آباد سے منشی سدا سکھ لال کی سرپرستی میں اخبار نورالبصار نکالا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو صحافت نے اردو ادب اور ادیبوں کو عوام سے روشناس کرایا ، اور اردو  ادب صحافت کے ذریعہ ہی مقبول ِعام ہوا، آپ نے بھی بحیثیت صحافی ادرات فرمائی، زمانہ طالب علمی ہی ميں" گلزار "كے نام سے ايك قلمی رسالہ  عروس البلاد ممبی سے مدت  تك نكالتے رہے ،  اس كے بعد بھٹكل سے پہلے انوارِ دانش سہماہی ، اس كے بعد نفیر فطرت سہماہی كا اجرا كیا، مگر دونوں پرچوں كے كچھ ہی شمارے نكلنے پائے تھے كہ دیگر پرچوں كی طرح امكانات كی كمی اور وسائل كی عمد فراہمی سے زیادہ دیر نہیں چل سكے، البتہ تاریخِ بھٹكل كی صحافتی خدمات كی دو ناموں كا اضافہ كر گئے  ۔

مشاعرہ :

            مشاعروں ميں شعر پڑھنے كا بھی رنگ سب سے جدا تھا، ترنم كے ساتھ پڑھنا پسند فرماتے تھے، جبكہ كبھی تحت اللفظ بھی پڑھ كر مجمع كو محظوظ فرماتے، دورانِ مشاعرہ شعر پڑھتے وقت پانی طلب كرنا آپ كا وصفِ خاص تھا، سامعين كی طرف سے اس پر بھی خوب لطف ليا جاتاتھا، پانی طلب كر نے كا مقصد پينا نہیں ہوتا تھا بلكہ آپ اس كے ذريعہ مشاعرہ كا لطف دوبالا كرنا چاہتے تھے

«
»

کیا مطلقہ کیلئے عدت کے بعد نفقہ کیلئے عدالت سے رجوع کرنا شرعاً درست ہے؟

شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے