بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

سیٹھ صاحب کے بارے میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ کوئی یہ الزام لگاسکے کہ انہوں نے کسی ذاتی فائدہ کے لئے یہ کیا بلکہ وہ یہی سمجھ کر آئے تھے کہ جیسے انہوں نے تمام مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم کے نیچے کیرالہ میں جمع کرلیا ہے اسی طرح وہ اُترپردیش، بہار اور دہلی میں بھی تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئیں گے۔ یاد آتا ہے کہ دو یا تین الیکشن میں انہوں نے تجربہ کیا لیکن جب یہ یقین ہوگیا کہ اُن کی وجہ سے فرقہ پرست پارٹیوں کو فائدہ ہورہا ہے تو انہوں نے کنارہ کرلیا یہ الگ بات ہے کہ کچھ موقع پرست آج بھی اس مسلم لیگ کو پکڑے بیٹھے ہیں۔
معلوم نہیں کیوں مرحوم صلاح الدین اویسی صاحب کے جانشین اسدالدین اویسی صاحب نے اپنے لئے ضروری سمجھا کہ وہ مسلمانوں کے قومی لیڈر بنیں اور ہر صوبہ میں اتحاد المسلمین کا پرچم لہرائیں۔ اسدالدین صاحب عمر میں ہم سے بہت چھوٹے ہیں لیکن دوسرے شعبوں میں ہم سے بڑے ہیں۔ انہوں نے شمالی ہند میں مسلمانوں کی سیاست کو دور سے دیکھا ہے اور ہم اس میں شریک بھی رہے ہیں۔ ان کی پیدائش کے جشن میں بھی، ان کی سالگرہ کی تقریب میں بھی اور کچھ دنوں کے بعد اُن کے کفن دفن میں بھی۔ 1948 ء میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؔ لکھنؤ میں ہی ایک کانفرنس میں مشورہ دے گئے تھے کہ مسلمان اپنی الگ پارٹی نہ بنائیں۔ وہ ملک کی دوسری پارٹیوں میں جیسے کمیونسٹ پارٹی، سوشلسٹ پارٹی یا کانگریس میں شریک ہوجائیں۔ مسلمانوں پر جب تک تقسیم کی دہشت سوار رہی اس وقت تک تو کسی نے الگ پارٹی بنانے کے بارے میں نہیں سوچا لیکن 1964 ء کے بعد رنگ برنگی پارٹی بننے لگیں۔ 1964 ء میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بنی جو انتخابی سیاسی پارٹی نہیں تھی لیکن وہ پھٹی تو اس میں سے مسلم مجلس نکلی اس نے باقاعدہ الیکشن میں حصہ لیا اور پھر ہر صوبہ میں بلکہ ہر ضلع میں ایک مسلم پارٹی بن گئی اور آج بھی معلوم نہیں کتنی پارٹیاں ہیں۔ شمالی ہند میں بننے والی کسی مسلم پارٹی نے وہ لہجہ نہیں اپنایا جو مسٹر جناح والی مسلم لیگ کا تھا لیکن اسدالدین اویسی صاحب اسی انداز میں تقریر کرتے ہیں جیسے 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں ہونے والی اس کانفرنس میں کی گئی تھیں جس میں قرارداد پاکستان پاس ہوئی تھی کہ صاف صاف الفاظ میں کہو کہ ہندو کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ یا ہمارے اور اُن کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں ہے اور اس کانفرنس کے بعد مسلم لیگ کے ہر لیڈر نے ایک ہی انداز اختیار کیا کہ ہندو لیڈروں پر تنقید کرو اور انہیں قابل احترام نہ سمجھو اور نہ کہو۔
اسدالدین اویسی صاحب نے شری اٹل بہاری باجپئی کو بھارت رتن دینے اور شری اڈوانی کو پدم وبھوشن کا اعزاز دینے پر اعتراض کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں لیڈر بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں میں ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے وہ سب کہا ہے جو ہم بھی نہ جانے کتنی بار لکھ چکے ہیں۔ اٹل جی اور اڈوانی جی اگر بابری مسجد کی شہادت کے مجرموں میں شامل ہیں تو وہ کون ہیں جنہوں نے انہیں یہ اعزاز دیئے ہیں؟ اگر اویسی سفارش کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کو ذمہ دار سمجھ رہے ہیں تو کیا وہ اُن کے ساتھ نہیں تھے؟ اور کیا انہوں نے 2014 ء کے لوک سبھا کے الیکشن میں اپنے انتخابی مینی فیسٹیو میں رام مندر بنانے کا وعدہ نہیں کیا ہے؟ وہ بھی اسی جگہ جہاں بابری مسجد تھی۔ اور اگر صدر جمہوریہ کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے یہ اعزاز کیوں دیا؟ تو کیا وہ اس وقت حکومت کے وزیر نہیں تھے جب وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے مسجد کو شہید ہوجانے دیا اور فوج کو حکم نہیں دیا کہ اپنا فرض ادا کرو۔
اویسی صاحب نے یہ بھی کہا کہ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جس کے خلاف مقدمات چل رہے ہوں اسے کوئی اعزاز دیا جائے۔ حیرت ہے کہ وہ کیوں بھول گئے کہ ان اعزازات سے زیادہ اہم وزارت ہے اور بہت بڑا عہدہ حکمراں پارٹی کی صدارت ہے۔ اس کے باوجود کتنے وزیر ہیں جو حکومت کررہے ہیں اور قتل کی سازش تیار کرنے کے ملزم جو ضمانت پر باہر ہیں وہ بی جے پی کے صدر ہیں۔ اگر پارٹی کے اندر جمہوریت حقیقی ہو تو یہ عہدہ ایسا ہے کہ جسے چاہے وزارت سے نکال دے حد یہ ہے کہ وزیر اعظم کو بھی استعفیٰ دینے پر مجبور کرسکتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اویسی صاحب سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر داخلہ کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ حکومت بھی اُن کی ہے اور ملک بھی اُن کا ہے۔
معلوم نہیں اسدالدین صاحب کو معلوم ہے یا نہیں کہ آزادی کے بعد سب سے پہلے جب اعزاز دیئے گئے تو شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کو پدم وبھوشن کا اعزاز دینے کا پروانہ لے کر ایک وزیر دیوبند گئے تھے۔ حضرت شیخ نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا تھا کہ ہم نے اعزاز کے لئے ملک کو آزاد نہیں کرایا تھا۔ انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لئے کرایا تھا اور اسی کے لئے قربانی دی تھی۔ ہمارے لئے سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ انگریز یہاں سے چلے گئے۔ لیکن جب ملک میں وہ ہوا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا تو فجر کی نماز کے بعد بہ آواز بلند دعائے قنوت بھی عمر بھر پڑھتے رہے۔
ہم اپنا سمجھ کر یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کسی صوبہ میں کسی سیکولر پارٹی کے 25 اُمیدواروں کو ہرواکر انہوں نے پانچ سیٹیں جیت لیں تو کیا اسے نفع کا سودا کہا جائے گا؟ وہ جنہیں بھارت رتن اور پدم وبھوشن بنانے پر اعتراض کررہے ہیں اُن کی ذہنیت سے خوب واقف ہیں۔ وہ ہر قیمت کے اوپر پورے ملک کو ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر بنانا چاہتے ہیں اور اویسی صاحب نے دیکھ لیا کہ مہاراشٹر میں انہوں نے ٹانگ اَڑاکر بی جے پی اور شیوسینا کو کمزور کرنے کے بجائے طاقت پہونچادی۔ انہوں نے اگر اورنگ آباد میونسپل بورڈ میں اچھی خاصی پوزیشن حاصل کرلی تو وہ ایک طاقتور حزب مخالف بننے کے زیادہ کیا بن گئے؟
ہم نے اویسی صاحب کو پارلیمنٹ میں بھی بولتے ہوئے سنا ہے اور آپ کی عدالت میں بھی۔ رجت شرما سے دو بہ دو گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے۔ ان سے پہلے بالکل یہی انداز اور لب و لہجہ ایک اسی عمر کے پرجوش عالم مولوی عبیداللہ خاں اعظمی کا تھا۔ ان کی بھی شعلے اور انگارے برساتی تقریروں کی وجہ سے جگہ جگہ اُن کے داخلہ پر پابندی لگا کرتی تھی۔ عبیداللہ خاں اعظمی کی کوئی پارٹی نہیں تھی لیکن جذباتی، کم علم اور کم عقل مسلمانوں میں وہ بیحد مقبول تھے۔ ان کی اسی مقبولیت کو دیکھ کر راجہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا۔ یہ ایسی افیم کی گولی ہے کہ اسے کھاکر بڑے بڑوں کو ہم نے اونگھتے ہی دیکھا ہے۔ سو مولانا بھی چھ برس اونگھتے رہے۔ پھر کانگریس نے یہ سوچ کر انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا کہ وہ اُن کو فائدہ پہونچائیں گے۔ ان کو بھی اندازہ ہوگیا کہ غلطی ہوگئی اور اب وہ اس لیڈر کے ساتھ ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
کس نمی پر سدکہ بھیا کیستی
اچھا ہو کہ اویسی صاحب مسلمانوں میں کوئی تعمیری کام کریں اور گھونسے دکھانے کے بجائے مسلمانوں کا مقدمہ سنجیدگی سے پارلیمنٹ میں پیش کریں۔ مودی کو کتا کہہ دینے سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور وہ ہندوؤں کو اپنا دشمن بناکر بھی عبیداللہ اعظمی بن جائیں گے جو بڑھاپے میں گم ہوجائیں گے۔ اس لئے وہ راستہ اختیار کریں جو اُن کے بعد بھی لوگ انہیں یاد کیا کریں۔

«
»

اکثریت واقلیت کی فرقہ پرستی کا فرق وامتیاز؟

نریندر مودی کیوں بچانا چاہتے ہیں کانگریس کی جان؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے