نریندر مودی کیوں بچانا چاہتے ہیں کانگریس کی جان؟

یہی سبب ہے کہ کانگریس نے اپنے اقتدار کے زمانے میں بی جے پی یا سنگھ پریوار کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی اور آج جب بی جے پی انتہائی شدومد کے ساتھ کانگریس کے وجود سے خالی بھارت کا نعرہ دے رہی ہے تب بھی اسے احساس ہے کہ اگر کانگریس ختم ہوئی تو اس کا اپنا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس کی تازہ مثال دلی اسمبلی الیکشن میں دیکھنے کو ملی ہے جہاں عام آدمی پارٹی نے کانگریس کی جگہ لے لی اور اس کا وجود ختم ہوگیا تو بی جے پی کا بھی خاتمہ ہوگیا اور صرف تین سیٹوں پر اسے سمٹنا پڑا۔ یہ سب کس طرح سے ہوا؟ اس سوال کا جواب ہم آپ کو تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دلی سے سبق لینے کی ضرورت
دلی اسمبلی الیکشن ۲۰۱۵ء میں عام آدمی پارٹی کو لگ بھگ ۵۳فیصد ووٹ ملے تھے جس کے سبب کل ۷۰ سیٹون میں سے ۶۷ پر اس نے قبضہ کرلیا۔بی جے پی کو ۳۲فیصد ووٹ ملے اور اسے محض تین سیٹوں پر کامیابی ملی۔ جب کہ کانگریس کو صرف ۹فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور ایک بھی سیٹ نہیں مل پائی تھی۔ اس پورے رزلٹ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ’’کانگریس سے آزاد بھارت ‘‘ کا نعرہ دلی میں عملی شکل میں آیا مگر اسی کے ساتھ یہاں کے لوگوں کو بی جے پی سے بھی آزادی مل گئی۔ اگر ووٹ فیصد پر نظر ڈالیں تو بی جے پی کو ماضی میں بھی کم وبیش اسی قدر ووٹ ملتے تھے مگر سیٹیں اچھی خاصی ملتی تھیں۔ اس سے سال بھر پہلے ہی اس نے دلی میں ۳۲سیٹیں جیتی تھیں اور سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری تھی۔ تب اسے ۳۲سیٹیں دلانے میں کانگریس کا اہم رول رہا تھا کیونکہ کانگریس نے اچھے خاصے ووٹ حاصل کئے تھے اور ووٹ کے اس بٹوارے میں بی جے پی کو فائدہ ہوا تھا۔ اس بار ایسا نہیں ہوا اور عوام نے محسوس کرلیا کہ کانگریس کو ووٹ دینے کا مطلب ہے اپنے ووٹوں کو ضائع کرنا، لہٰذا انھوں نے کانگریس کے بجائے عام آدمی پارٹی کو کھل کر ووٹ دیا۔
ایک جگہ متحد ہوکر ووٹ گرنے کے سبب کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کا بھی اسمبلی سے صفایا ہوگیا۔ گویا بی جے پی کی جیت کے پیچھے کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے بیچ ووٹ کا بٹوارہ اہم رول ادا کرتا ہے۔ اگر ووٹ تقسیم نہ ہو تو بی جے پی کو کبھی کامیابی نہ ملے۔ دلی میں یہی ہوا کہ یہاں ووٹ تقسیم نہیں ہوا اور عام آدمی پارٹی کے حق میں عوام کا فیصلہ آیا۔ 
بہار، یوپی اور دوسرے صوبوں میں کیا ہوگا؟
بہار میں انتخابات قریب ہیں اور یہاں بی جے پی کو پسینہ چھوٹنے لگا ہے کیونکہ ریاست میں جنتادل (یو) اور راشٹریہ جنتا دل کا انضمام ہوچکا ہے۔ کانگریس اور کمیونست پارٹیاں بھی حکمراں جنتا دل یو کے ساتھ ہیں اور ساتھ ہی مل کر الیکشن لڑنے کا پروگرام بنا رہی ہیں۔ اب تک یہاں بی جے پی کو جو بھی سیٹیں ملتی تھیں اس کے پیچھے سیکولر ووٹوں کی تقسیم سب سے بڑی وجہ ہوا کرتی تھی۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں جہاں بی جے پی کو دوسرے صوبوں میں مودی لہر کا سہارا ملا تھا وہین بہار میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے سبب اسے بیشتر سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ اس بار اسمبلی الیکشن میں نہ مودی لہر ہے اور نہ ووٹوں کی تقسیم ہورہی ہے ، جس نے اس کا راستہ مشکل بنادیا ہے اور سیاست کے پنگھٹ کی ڈگر کٹھن ہوگئی ہے۔ اتر پردیش میں سیاسی صورت حال بہار سے الگ ہے مگر کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح طرح سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے۔ اگر یہاں ان پارٹیوں کے بیچ انتشار رہا تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ملے گا اور اگر اتحاد ہوگیا تو یہاں بھی بی جے پی کو ناکام اور نامراد پھرنا پڑے گا۔ 
کانگریس سے آزاد بھارت کا خواب
گزشتہ سال عام انتخابات میں بی جے پی کو ملی جیت سے حوصلہ پاکر بی جے پی نے اعلان کیا کہ وہ ’کانگریس سے آزاد بھارت‘ کے اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہی ہے اور نریندر مودی حکومت نے کانگریس کی طرف سے پیدا کئے گئے ’اعتماد کے بحران‘ کا مؤثر طریقے سے حل نکالاہے۔ پارٹی نے کہا کہ وہ غریب لوگوں کو مضبوط بنانے میں یقین کرتی ہے جبکہ کانگریس اپنے اقتدار میں ،غربت کو مضبوط بنا رہی تھی۔ مرکزی وزیر نرملا سیتا رمن نے بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ میں منظور پارٹی کی سیاسی تجویز پر میڈیا کو معلومات دیتے ہوئے کہا تھاکہ ’کانگریس سے آزاد بھارت‘ مہم کا پیغام مرحلہ وار واضح شکل اختیار کر رہا ہے۔ گزشتہ سال کے پارلیمانی انتخابات میں مودی نے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر زور شور سے ‘کانگریس سے آزاد بھارت‘ نعرے کو آگے بڑھایاتھا۔جس سے انتخابات میں بی جے پی کو تاریخی فتح ملی۔ اس کے بعد کئی اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، اگرچہ اس سال فروری میں ہوئے دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی ہار گئی۔بی جے پی کی طرف سے اس اعلان کے باوجود اس کے اندر ایک قسم کی گھبراہٹ ہے اور اسے معلوم ہے کہ کانگریس کا وجود اس کے لئے بابرکت ہے۔ کانگریس کا کمزور ہونا اس کے حق میں ہے مگر اس کا مکمل خاتمہ اس کے لئے نقصاندہ ہے۔نریندر مودی نے لوک سبھا انتخابات کے دوران ’کانگریس سے آزاد ہندوستان‘ کا نعرہ دیا تھا۔ظاہر ہے کہ وہ کانگریس کو ختم کر کے ہی دم لینا چاہتے تھے۔کانگریس مرکز کے اقتدار سے باہر ہو گئی اور لوک سبھا انتخابات میں اسے کل نشستوں کی دس فیصد سیٹ بھی حاصل نہیں ہوئی۔اس کے باوجود اب بھی ملک کے۹ ریاستوں میں کانگریس پارٹی اقتدار میں ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، آسام، ہماچل پردیش، کرناٹک، کیرالہ، منی پور، میگھالیہ،
میزورم اور اتراکھنڈ شامل ہیں۔ گزشتہ سال کانگریس دہلی، ہریانہ، مہاراشٹر،راجستھان اور آندھرا پردیش میں اقتدار سے باہر ہوئی تھی۔کانگریس جن ریاستوں میں اقتدار میں ہے، ان میں پانچ شمال مشرق کی کم آبادی والے ریاستیں ہیں۔ آسام،کرناٹک اور کیرالہ ہی اہم ریاستیں بچی ہیں۔ابھی تک کانگریس کو انھیں صوبوں میں ختم کیا جاسکا ہے جہان اس کا کوئی غیر بی جے پی متبادل سامنے آیا ہے جیسے، بہار، یوپی ، تمل ناڈو اور مغربی بنگال۔
کانگریس مین خانہ جنگی
جہاں ایک طرف بی جے پی کی طرف سے کانگریس سے ملک کو مکمل طور پر آزاد کرانے کا نعرہ لگایا جارہا ہے وہین دوسری طرف کانگریس کے اندر لیڈر شپ کی جنگ جاری ہے۔ ایک طبقہ چاہتا ہے کہ کانگریس کی مکمل قیادت راہل گاندھی کے ہاتھ میں چلی جائے وہین دوسرا طبقہ فی الحال اس کے لئے مناسب وقت نہیں سمجھتا۔ اس کا ماننا ہے کہ ابھی سونیا گاندھی کو ہی پارٹی کا صدر رہنا چاہئے۔ اس تعلق سے حال ہی میں امبیکا سونی اور سندیپ دکشت کے بیانات آچکے ہیں۔کل ہند کانگریس کمیٹی کی سیکرٹری جنرل امبیکاسونی نے زور دے کر کہا کہ پارٹی کو صدر کے طور پر سونیا گاندھی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ وقت سے چھٹی پر چل رہے راہل گاندھی کا بھی زوردار دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایک کی قیمت پر دوسرے کے ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ پارٹی کے سابق ممبر پارلیمنٹ سندیپ دکشت کی جانب سے ایک دن پہلے دیئے گئے ایک بیان کے بعد سونی کا یہ بیان آیا ہے۔ دکشت نے کہا تھا کہ پارٹی میں 99 فیصد لوگوں کی رہنما سونیا ہیں اور پارٹی کے مرکز میں ان کی ضرورت ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہے۔ سونی نے کہا کہ ایک کی قیمت پر دوسرے کے ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے. کانگریس صدر ہماری صدر ہیں۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے، اور آپ کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ ریاستوں میں جا کر کسانوں سے مل رہی ہیں، پارٹی میں جان پھونک رہی ہیں۔پوری پارٹی جوش میں ہے۔ انہوں نے ان سوالات کو بھی درکنار کیا کہ دکشت کا تبصرہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پارٹی میں کچھ لوگ راہل کو نہیں چاہتے۔ گزشتہ کچھ وقت سے ایسی قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں کہ راہل کو کانگریس کا صدر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ سونی نے کہا کہ ان کا (دکشت کا) مطلب یہ نہیں تھا۔ میڈیا سے ان کی بات چیت سے مجھے ایسا کچھ نہیں لگا۔آپ ان سے پوچھیں کہ ان کے کہنے کا کیا مطلب تھا۔ وہ یہی بات بولیں گے کہ ہمیں کانگریس کی صدر اور نائب صدر دونوں کی ضرورت ہے۔امبیکا سونی نے کہا ہم جانتے ہیں کہ سونیا اپنی قیادت کی خصوصیات کے ذریعہ کانگریس کو اقتدار میں واپس لے کر آئیں۔ یو پی اے کی تشکیل تب ہوئی جب انہوں نے سیکولر پارٹیوں کے لیڈروں سے رابطہ کیا اور پھر ہم نے یو پی اے ۔1 اور یو پی اے ۔2 کی حکومت بنائی۔ آج ہم ایک بار پھر اپوزیشن میں ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ سونیا گاندھی ہماری صدر ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ کیا وہ مانتی ہیں کہ راہل کو صدر بنانے کا یہ صحیح وقت ہے، سونی نے کہا یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو کانگریس پارٹی اور کانگریس کے کارکن مناسب وقت پر کریں گے۔ ایسی قیاس آرائی ہے کہ مئی میں ممکنہ کل ہند کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں راہل کو کانگریس کی صدر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ انہیں پارٹی صدر عہدے پر فائز کرنے اور نئے طریقے سے کام کرنے اور کئی انتخابات میں شکست کے بعد تنظیمی تبدیلی کی انہیں چھوٹ دینے کو لے کر الگ الگ آوازیں مسلسل اٹھ رہی ہیں۔کمل ناتھ اور دگ وجے سنگھ جیسے سینئر رہنماؤں نے کھلے طور پر کہا ہے کہ یہ بالکل صحیح وقت ہے جب راہل کو اعلیٰ
عہدے پر فائز ہو جانا چاہئے۔ اب امبیکا سونی نے بھی صاف کر دیا ہے کہ پارٹی کو صدر کے طور پر سونیا گاندھی کی ضرورت ہے۔ اس سے واضح ہے کہ راہل گاندھی کے واپس آنے کے بعد اگلے کانگریس صدر کے معاملے پر بحث میں مزید تیزی آسکتی ہے۔

«
»

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

پاک چین کوریڈوراورافغانستان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے