دوقدم تم بھی چلو۔۔۔

حقیقی دنیا کی گیتا کو بجرنگی بھائی جان کی جگہ ایدھی فاؤنڈیشن کے انسانیت نواز کارکن مل گئے تھے۔ فاؤنڈیشن کے بانی عبدالقادر ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی بہ نفس نفیس گیتا کے ساتھ ہندوستان پہنچیں تھیں اور جس طرح ایک بیٹی کو وداع کرکے ماں اپنے وطن واپس لوٹتی ہیں‘ اسی طرح بلقیس ایدھی گیتا کو ہندوستانی سرزمین پر وداع کرکے اشکبار آنکھوں سے واپس ہوگئیں۔
وزیر اعظم مودی نے پاکستانی ہم منصب نواز شریف اور ایدھی فاؤنڈیشن سے اظہار تشکر کیا۔ ایسے وقت جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدہ ہوتے جارہے ہیں‘ گیتا کی واپسی گھٹن کے ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ باہمی دوستی اور رواداری کی فضا کو ہموار کرنے میں اس قسم کے واقعات کا اہم رول ہوا کرتا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی انسانیت نوازی، ایک ہندوستانی ہندو لڑکی کے ساتھ مذہبی رواداری کا ہر ہندوستانی قائل ہوچکا ہے۔ یقیناًشیوسینا اور اس کی ہم خیال تنظیمیں اندر ہی اندر شرمندہ ہورہی ہوں گی۔ ایسے وقت جب شیوسینا نے پاکستانیوں کے بائیکاٹ کی مہم چھیڑ رکھی ہے‘ پاکستان کے اس اقدام سے ان کے سینوں پر سانپ بھی لوٹ گئے ہوں گے۔ انہیں ہر پاکستانی اپنا دشمن نظر آتا ہے۔ چاہے وہ کرکٹر ہو یا گلوکار‘ سنگیت کار ہو یا فنکار۔ جب کبھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے اس کا غصہ یا ردعمل کھیل، تہذیب و ثقافتی اداروں پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ ردعمل دراصل ہماری کمزوری ہے‘ کھلاڑی، فنکار تو اپنے اپنے ملک کے تہذیبی سفیر ہوتے ہیں۔ وہ کشیدہ تعلقات کو اپنے فن سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ برسوں پہلے لتامنگیشکر کے بیرونی ملک دورہ کے دوران ان کے پروگرام میں شہنشاہ جذبات دلیپ کمار نے لتا کا تعارف جن الفاظ میں کروایا تھا وہ الفاظ شاید ہر فنکار کے لئے ہیں۔ جس طرح سورج کی کرنوں کا کوئی دیش نہیں ہوتا۔ ’’جس طرح کسی معصوم بچے کے مسکراہٹ کا کوئی دھرم، کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ جس طرح بہتے ہوئے جھرنوں کا کوئی گاؤں نہیں ہوتا۔ اس طرح لتامنگیشکر کی آواز… سب کے لئے ہے‘‘۔
حافظ سعید، اجمل قصاب، القاعدہ، آئی ایس آئی، جماعت الدعوہ، لشکر طیبہ جیسی تنظیموں نے اپنی مبینہ دہشت گرد سرگرمیوں سے ہند۔پاک تعلقات کو کشیدہ بنایا ہے۔ ان کی کاروائیوں کے لئے ہر پاکستانی کو موردِ الزام ٹھہرانا یقیناًانصاف نہیں ہے۔ اگر مذکورہ تنظیمیں ہندوستانی مفادات کو نقصان پنہچارہی ہیں تو ان کی مذمت ضروری ہے۔ ان کے خلاف کاروائی کیلئے حکومت پاکستان سے مطالبہ اس پر دباؤ ناگزیر ہے‘ تاہم وہ راستے منقطع کردینا بھی درست نہیں ہے جو دوستی بھائی چارگی کی منزل تک جاسکتے ہیں۔
حکومت کے ارباب مجاز کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی وہ تنظیمیں جن کی انتہا پسندی، جارحیت اور تعصب پرستی سے ملک کا وقار اور اس کا سیکولر کردار داؤ پر لگا ہوا ہے‘ یہ احساس کریں کہ اگر پڑوسی ملک میں لکھوی حافظ سعید جیسے ہند دشمن عناصر ہیں تو وہاں عبدالستار ایدھی جیسی ہستیاں ہیں۔ تخریب پسند تنظیمیں ہیں تو ایدھی فاؤنڈیشن جیسے انسانیت نواز ادارے بھی جو مذہبی، علاقائی تعصبات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
گیتا نے پندرہ برس پاکستان میں گزارے… اسے مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ اسے ایک ایسا کمرہ بھی دیا گیا جہاں وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھ سکے۔ ان کی پوجا کرسکے۔ شاید اسی وجہ سے پاکستان کی بعض شدت پسند مذہبی تنظیموں نے عبدالستار ایدھی کے خلاف کفر کا فتویٰ بھی دیا تھا۔ عبدالستار ایدھی جو عمر کی 87ویں بہاریں گزار چکے ہیں بھلا ضمیر فروش علماؤں کی مخالفت کی کیا پرواہ کرتے۔ وہ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ اسلام انسانیت کی تعلیم دیتا ہے۔ جس نے زمین پر رہنے والے جانداروں کے ساتھ صلہ رحمی کی تلقین کی۔ ’’تم زمین والوں پر رحم کرو… آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔
عبدالستار ایدھی نے 1951ء میں ایک میدان میں ایک خیمے میں عارضی ہاسپٹل کے ساتھ اپنی فلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا آج ایدھی فاؤنڈیشن عالمی شہرت کا حامل ہے۔ اس کے تین سو سے زیادہ سنٹرس ہیں۔ فری ایمبولینس کے سب سے بڑا نیٹ ورک کے طور پر گنس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس کا نام 1997ء میں درج کیا جاچکا تھا۔ کراچی میں اس کے تحت آٹھ ہاسپٹلس قائم ہیں۔ ایک آئی اسپیشالٹی ہاسپٹل، بلڈ بنک، ڈایباٹک سنٹرس ہیں۔ بے سہارا بچوں کے لئے 15اپنا گھر ہیں۔ جب کبھی پاکستان کے لئے کسی شہر میں کوئی ناگہانی یا ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سرویس متحرک ہوجاتی ہے۔ عبدالستار ایدھی کی اصل طاقت ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی ہیں جو گیتا کے ساتھ ہندوستان آئی تھیں۔ اپنی انسانیت نواز خدمات کے لئے عبدالستار ایدھی کو جہاں لبنن پیس ایوارڈ پیش کیا گیا وہیں ان کے اپنے وطن میں انہیں بندوقوں کی نال پر لوٹ لیا گیا۔
بہرحال‘ ایدھی فاؤنڈیشن کا طرز عمل ہند۔پاک تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ پاکستانی سفارتکار منظور میمن نے ہندوستانی جیلوں میں قید چارسو ماہی گیروں کے ساتھ اچھے طرز عمل کی امید ظاہر کی ہے جو فطری ہے۔ سرحدی تنازعات، مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کی بقاء کے لئے باہمی تلخیاں ضروری ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان مستقل طور پر دوستی اور امن کی فضاء قائم ہوجائے تو ہزاروں سپاہی بے روزگار ہوجائیں گے۔ کروڑوں نہیں اربوں ڈالرس کے ہتھیار بے کار ہوجائیں گے۔ ہتھیاروں کے سوداگر ممالک کو اپنی بقاء کیلئے ہند۔پاک کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا کرتے رہنے کی کوششیں سازشیں جاری رکھنا ضروری ہے۔ طاقتور ممالک جن کے ہم نادانستہ طور پر آلہ کار ہیں یا ان کی سیاسی و تجارتی شطرنج کی بساط کے مہرے ہیں نہ تو ہند۔پاک کو کبھی ایک ہونے دیں گے‘ نہ ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہونے دینگے۔ کیوں کہ یہاں کا امن یہاں کے انتشار کا سبب ہوگا۔
ان تلخ حقائق سے کون واقف نہیں۔ تلخیوں کے باوجود تعلقات کو برقرار رکھا جاسکتا ہے اس کے لئے کھیل، تہذیب و ثقافت کے شعبوں میں پیشرفت ضروری ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کے بائیکاٹ‘ ان کے ہندوستان میں داخلہ کے خلاف مظاہروں کے پس پردہ بعض ہندوستانی فنکار بھی ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ پاکستانی گلوکار اور اداکاروں نے جب سے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کیا ہے تب سے کمپیوٹر کی مدد سے اپنے آپ کو منوانے والے گلوکار سنگیت کاروں کی مارکیٹ ویلیو کم ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر یہ گھٹیا ذہن کے فنکار پڑوسی ملک کے عظیم فنکاروں کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔
ہند۔پاک تعلقات کے بگاڑ کی ایک وجہ داؤد ابراہیم بھی ہیں۔ ہندوستان کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ داؤد ابراہیم کو اس کے حوالے کردیا جائے جو ممبئی بم دھماکوں کا کلیدی ملزم ہے۔ داؤد ابراہیم جو دوبئی سے ساری دنیا میں اپنا کاروبار کنٹرول کیا کرتے تھے‘ ان دنوں پاکستان میں ہیں یا دوبئی میں یا کسی اور ملک میں اس سلسلہ میں کوئی مصدقہ خبر نہیں۔ تین چار مہینہ پہلے ایک ٹیلی ویژن چیانل نے انکشاف کیا تھا کہ داؤد ابراہیم کی گرفتاری کے لئے ایک حکمت عملی تیار کی جارہی ہے اس کے لئے داؤد کے سابق دوست جو اب اس کے بدترین دشمن بن چکا ہے‘ چھوٹا راجن کو استعمال کیا جائے گا۔ اب تین ماہ بعد راجن کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ انڈونیشیا کے شہر بالی کے ایرپورٹ پر راجن کی گرفتاری ہوئی یا اس نے ایک پہلے سے طئے شدہ پروگرام کے تحت خود کو گرفتاری کے لئے پیش کیا ہے اس کا انکشاف بہت جلد ہوجائے گا۔ چھوٹا راجن ایک معمولی سا پاکٹ مار جو کبھی داؤد کا دست راست تھا۔ دونوں تمام جرائم میں شریک رہے۔ ڈرگس اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے لے کر جبری رقم کی وصولی جیسے جرائم میں وہ ساجھے دار رہے۔ ممبئی بم دھماکوں کے بعد دونوں میں فاصلے پیدا ہوئے۔ اب ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ 2000ء میں داؤد کے نشانہ بازوں نے راجن پر تھائی لینڈ کے ایک ہاسپٹل میں قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا‘ جس میں زندہ تو بچ گیا مگر اسے گردہ کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ داؤد کے دست راست چھوٹا شکیل نے راجن کو جان سے مارنے کی قسم کھائی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اپنی گرتی صحت اور داؤد گینگ سے لاحق خطرات کے پیش نظر راجن نے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کو ترجیح دی۔ ویسے بھی جس کا گروہ کمزور ہوجاتا اس کے چیلے اپنے اپنے گروہ تشکیل دے کر خود کا کاروبار کررہے ہیں۔ بہرحال ’’راجن‘‘ کے پاس اب بھی داؤد سے متعلق بہت سی معلومات ہوں گی‘ جن کی مدد سے ہندوستان داؤد کے خلاف شکنجہ کس سکتا ہے۔ اس مقصد میں کون کس حد تک کامیاب ہوگا‘ آنے والا وقت بتائے گا۔
ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ داؤد گرفتار ہو یا نہ ہو… باہمی تعلقات اور رشتوں کو بہتر بنانے کیلئے 
دوقدم تم بھی چلو… د وقدم ہم بھی چلیں

«
»

جھوٹ بولے تو بولتے چلے گئے

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے