اسرائیلی بربریت کی نئی جھلک: 135 فلسطینی شہداء پر تشدد اور پھندے کے زخم واضح

غزہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل کی جانب سے حال ہی میں واپس کیے گئے 135 فلسطینی شہداء کے اجساد پر تشدد، اذیت اور غیر انسانی سلوک کے واضح نشانات پائے گئے ہیں۔ یہ تمام لاشیں اسرائیل کے سدی تیمان (Sde Teiman) فوجی کیمپ میں قید یا حراست میں رکھے گئے افراد کی تھیں — وہی بدنامِ زمانہ حراستی مرکز جہاں فلسطینی قیدیوں پر نظامی تشدد، قتل اور اذیت رسانی کے سنگین الزامات پہلے ہی زیرِ تفتیش ہیں۔
لاشوں پر پھندے کے نشانات، بندھی ہوئی آنکھیں اور ٹوٹی ہوئی ہڈیاں
غزہ کی وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البُرش نے بتایا کہ ہر لاش کے ساتھ ایک عبرانی ٹیگ منسلک تھا جس پر سدی تیمان کیمپ کا حوالہ درج تھا۔ بعض ٹیگز میں یہ بھی لکھا تھا کہ لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ اسرائیلی فوجی اڈے پر کیے گئے تھے۔
ڈاکٹروں کے مطابق، کئی اجساد پر گولیوں کے زخم قریب سے فائر کیے جانے کے تھے، جبکہ بعض کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے اور گردنوں پر رسّی کے نشانات واضح تھے۔ چند لاشوں کی ہڈیاں کچلی ہوئی تھیں، جیسے ان پر ٹینک کے ٹریک چلے ہوں۔
”یہ محض تشدد نہیں، بلکہ قتلِ عام کی منظم شکل ہے“
خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس کے حکام نے بتایا کہ لوٹائے گئے اجساد کے ساتھ کوئی نام نہیں تھا، صرف کوڈ نمبر دیے گئے تھے۔
ایک فلسطینی شہری نے اپنے بھائی محمود اسماعیل شباط (عمر 34 سال) کو ایک سرجری کے پرانے نشان سے پہچانا۔ شباط کے جسم پر اذیت کے واضح نشانات تھے۔
فزیشنز فار ہیومن رائٹس اسرائیل (PHR) نے واقعے کو “ہولناک مگر غیر متوقع نہیں” قرار دیا۔ تنظیم نے کہا کہ سدی تیمان کیمپ سے ملنے والے شواہد نظامی تشدد اور ماورائے عدالت قتل کی تصدیق کرتے ہیں۔
تنظیم نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ اسرائیلی فوجی حراستی مراکز میں بین الاقوامی سطح پر آزادانہ تفتیش کرائی جائے۔
عینی شاہدین کی گواہی: قیدیوں کے ہاتھ باندھ کر ناپیوں میں رکھا جاتا تھا
برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق ایک اسرائیلی وہسل بلوئر نے انکشاف کیا کہ سدی تیمان میں قیدیوں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر، ہاتھ باندھ کر، اور ناپیاں پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
بعض فلسطینیوں کو اسپتالوں سے گرفتار کیا گیا، اور ہتھکڑیوں کے زخموں میں انفیکشن پھیلنے کے بعد ان کے اعضا کاٹنے پڑے۔
جب اسرائیلی فوج (IDF) سے اس بارے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ معاملہ اسرائیل پرزن سروس کو بھیج دیا گیا ہے، تاہم مزید تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ “تمام قیدیوں کے ساتھ مناسب اور محتاط برتاؤ کیا جاتا ہے، اور اگر کوئی شکایت ہو تو اس کی تفتیش کی جاتی ہے۔”
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 75 فلسطینی قیدی اسرائیلی حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب غزہ میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 1.7 لاکھ زخمی ہو چکے ہیں۔ تقریباً 78 فیصد عمارتیں تباہ اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
یہ واقعہ نہ صرف اسرائیلی مظالم کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی شرمناک خاموشی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
یہ وہی دنیا ہے جو ایک طرف “جمہوریت اور انسانی حقوق” کا علم بلند کرتی ہے، مگر جب فلسطینیوں کی لاشوں پر تشدد کے نشانات نظر آتے ہیں تو خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔

‘جمہوریت کا قتل’: پرشانت کِشور کا دعویٰ، بی جے پی نے جن سوراج امیدواروں کو ‘ہاسٹج’ کیا

مقبوضہ مغربی کنارے کی۷۰؍ ہزار مربع میٹر زمین پراسرائیلی حکومت نے کیا قبضہ :رپورٹ