گزشتہ دو برسوں میں، ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد جو ویڈیو سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی تھی، وہ نہ کسی شہید بچے کی تھی، نہ کسی مسمار عمارت کی — بلکہ ایک ایسی ویڈیو تھی جو تل ابیب کے دھوپ سے نہائے ساحلوں پر بنی تھی۔
برطانوی صحافی میتھیو کاسل کی اس رپورٹ میں اسرائیلی عوام کو ہنستے، کھیلتے، کافی پیتے، اور خریداری کرتے دکھایا گیا۔ پس منظر میں جنگ جاری تھی، مگر چہروں پر سکون تھا۔
جب کاسل ایک "جنگ مخالف” احتجاجی مظاہرے تک پہنچتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ وہاں فلسطینیوں کا ذکر ہی غائب ہے۔
ایک بوڑھا شخص چیختا ہے:
“یورپی اور آسٹریلوی بیوقوف ہیں، وہ نہیں سمجھتے کہ اسلام ان تک بھی آ رہا ہے۔”
تقریباً ہر اسرائیلی نے فلسطینیوں کے قتل و قحط پر یا تو یقین نہیں کیا یا انکار کر دیا۔
ایک نوجوان عورت کہتی ہے:
“غزہ کی اسی فیصد تصویریں جعلی ہیں۔ یہ سب ‘Gazawood’ ہے، بالکل Pallywood کی طرح۔”
گویا انسانی حقوق کی تمام رپورٹیں، اسرائیلی فوج کے اپنے اعداد و شمار، اور شہادتوں کی ہزاروں تصاویر ، سب "جھوٹ”۔
ان کے نزدیک اسرائیلی فوج اب بھی "اخلاقی فوج” ہے، جو کبھی غلطی نہیں کرتی۔
مگر کیا سب کچھ واقعی ۷ اکتوبر سے شروع ہوا تھا؟
یہ سوال اب مغربی دنیا کے فنونِ لطیفہ کے حلقوں میں شدت سے گونج رہا ہے۔
’برائی سوچ کی ناکامی سے جنم لیتی ہے‘
جوناتھن گلیزر کی فلم The Zone of Interest کو اکثر غزہ کے المیے کے ساتھ جوڑا گیا۔اس فلم میں ایک عام جرمن خاندان کو دکھایا گیا ہے جو آشوٹز کے عقوبت خانے کے قریب معمول کی زندگی گزارتا ہے۔
جب گلیزر نے ۲۰۲۴ء کے آسکر خطاب میں اسرائیلی جارحیت پر خاموش مغرب کو للکارا تو یہ فلم محض ایک فلم نہیں رہی — یہ اخلاقی بیداری کی علامت بن گئی۔
جیسا کہ فلسفی ہنّا آرنٹ نے کہا تھا:
“برائی اس وقت جنم لیتی ہے جب انسان سوچنا چھوڑ دیتا ہے۔”
آج وہی سوچنے، سوال کرنے، اور سچ بولنے والے لوگ مغرب کے آرٹ کو نئی سمت دے رہے ہیں۔
۷ اکتوبر کے بعد مغربی فنکاروں اور ادیبوں کے لیے سب سے مشکل وقت آیا۔ہر بیان کا آغاز "ہم حماس کی مذمت کرتے ہیں” سے کرنا لازم ہو گیا،ورنہ کیریئر ختم۔عرب مصنفین کو اپنے انسان ہونے کا ثبوت دینا پڑا کہ وہ دہشت گرد نہیں، کہ وہ یہودی مخالف نہیں، کہ وہ صرف انصاف کے خواہاں ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب مغرب کی آزادیٔ اظہار ایک فریب ثابت ہوئی۔کتنے ہی ادیبوں، فلم سازوں اور گلوکاروں کو صرف فلسطین کا ذکر کرنے پر برخاست کر دیا گیا۔کتاب میلوں اور فلمی میلوں نے فلسطینیوں کو مدعو کرنے سے انکار کیا۔مگر جیسے جیسے غزہ کے شہداء کی تعداد بڑھتی گئی،دنیا کا ضمیر جاگنے لگا۔
پہلے مارک رفالو، جیویر بارڈم، سوسن سارنڈن، بیلا حدید اور دعا لیپا جیسے چند چہرے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔پھر یہ ایک تحریک بن گئی۔اب وہی ہالی وڈ جو کبھی اسرائیل کا ترجمان سمجھا جاتا تھا،فلسطین کی کہانی سننے لگا۔
آج فلسطینی پرچم اور تربوز کی علامت والے بیجز مغربی موسیقی میلوں کا حصہ ہیں۔اداکار بڑے پروڈیوسر بن کر فلسطینی فلموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔”نو ادر لینڈ” (No Other Land) نے آسکر جیت کر تاریخ رقم کی —یہ پہلی عربی کہانی تھی جو ہالی وڈ کے سب سے بڑے اسٹیج تک پہنچی۔
امریکی اداکارہ انڈیا مور نے وینس فلم فیسٹیول میں کہا:“ہمیں یہ جانچنا ہوگا کہ ہمارے فن میں پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔” یہ جملہ بہت گہرا ہے۔
فلمی دنیا میں سرمایہ ہمیشہ مشکوک رہا ہےکبھی اسرائیلی فوج سے جڑا، کبھی سعودی بادشاہت سے، کبھی چین یا امریکی کمپنیوں سے۔مگر اب سوال یہ ہےکہ کیا کسی ایسے ملک کا پیسہ قبول کیا جا سکتا ہے جو خود نسل کشی میں شریک ہو؟یہ سوال صرف اسرائیل پر نہیں،مغربی دنیا کے اپنے ضمیر پر بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
آج فلسطینی کہانی مغربی آرٹ میں اپنی مضبوط جگہ بنا چکی ہے۔مو اور رامی جیسے ٹی وی شوز نے فلسطینی زندگی کو انسانی سطح پر دکھایا۔ یاسمین ظاہر، بسام خندقجی اور مصعب ابو طحہ جیسے ادیب عالمی انعامات حاصل کر رہے ہیں۔
اب فلسطینی کہانی صرف ظلم کی نہیں ،وقار، مزاحمت اور شناخت کی کہانی ہے۔اگرچہ اب بھی کئی "ناپسندیدہ” موضوعات جیسے مسلح جدوجہد، فلسطینی اتھارٹی کی کرپشن یا سماجی تضادات فلمی دنیا کے لیے ممنوع ہیں،مگر ایک بات طے ہے کہ یہ آواز اب دبنے والی نہیں۔
۷ اکتوبر کے دو برس بعد دنیا بدل چکی ہے۔مغربی فنون کا چہرہ پہچانا نہیں جا رہا۔
جہاں کبھی فلسطینیوں کا ذکر بھی جرم تھا،وہاں اب فلسطین آرٹ، فلم اور شاعری کا مرکزی عنوان بن چکا ہے۔جیسا کہ سیمون دی بوواغ نے کہا تھا:“وہ آزادی جو دوسروں کی آزادی چھینے، اسے مسترد کرنا لازم ہے۔”
اسرائیل کی وہ "آزادی” —جو ۱۹۴۸ء سے فلسطینی کہانی کو دبائے بیٹھی تھی ،اب اپنی گرفت کھو رہی ہے۔
اور جیسا کہ غسان کنفانی نے لکھا تھا:
“فلسطین صرف ایک قوم کا مسئلہ نہیں،
یہ ہر مظلوم، ہر محنت کش، ہر بغاوت کرنے والے انسان کی جنگ ہے۔”
تل ابیب کے ساحلوں پر ناچتے چہروں کی بے حسی اب معمول نہیں رہی ،اب وہ شرم کی علامت ہے۔دنیا جاگ چکی ہے،
اور فلسطینی کہانی اب دنیا کے ہر ذی شعور انسان کی کہانی بن چکی ہے۔




