وقف پر سرکاری شکنجہ؟ امیر شریعت نے اٹھائے سخت سوال، گنائیں ۴۴ بڑی خامیاں

پٹنہ: امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ کے امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے مرکزی حکومت پر سنگین الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل جلد بازی میں اور غلط ارادوں سے لایا گیا ہے اور اس میں کل 44 بڑی خامیاں ہیں۔

مولانا رحمانی نے الزام لگایا کہ یہ بل لینڈ مافیا کے مفاد میں تیار کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے حکومت کی جانب سے وقف املاک پر قبضہ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ بل وقف کے تحفظ کو کمزور کرتا ہے اور ہماری مذہبی اور سماجی شناخت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے‘‘۔

‘زرعی قانون کی طرح وقف ترممی ایکٹ بھی واپس لیا جائے’

مولانا فیصل رحمانی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس ترمیمی قانون کو واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایس سی ایس ٹی قانون کو واپس لے لیا گیا، زرعی قانون کو واپس لے لیا گیا، پھر حکومت اس قانون کو واپس کیوں نہیں لے رہی ہے۔

جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی سے مطالبہ

انہوں نے اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایت کرنے والی دیگر جماعتوں سے کہا کہ وہ اس قانون کے خلاف کھڑی ہوں اور مرکز پر زور ڈالیں کہ وہ اس قانون کو واپس لے، کیونکہ یہ قانون کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔

‘وقف قانون میں غریب مسلمانوں کا ذکر تک نہیں’

فیصل رحمانی نے اس قانون کی مکمل کاپی دکھاتے ہوئے صاف صاف کہا کہ اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اس سے غریب مسلمانوں کا بھلا ہوگا یا غریب مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

‘بہار کے 3900 مدارس بھی زد میں’

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ترمیمی قانون میں ایسے کالم لکھے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر پوری طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ لینڈ مافیا کے مفاد میں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہار کی مثال دیتے ہیں، بہار میں 3900 مدارس چلتے ہیں اور سبھی وقف کی جائیداد پر بنائے گئے ہیں۔ جب مدرسہ بورڈ بنایا گیا تو تمام مدارس کو سپورٹ کے تحت لایا گیا اور سبھی ٹرسٹ کے تحت آتے ہیں، لیکن وقف ترمیمی قانون میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ٹرسٹ بنانے کے رہنما اصولوں کے مطابق آپ کی جائیداد کو چلایا جائے۔ موجودہ مدارس کو بھی اسی کے مطابق کام کرنا ہوگا۔

‘تمام اختیارات کلکٹر کو منتقل’

فیصل رحمانی نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت تمام اختیارات کلکٹر/سرکاری کو دے دیے گئے ہیں جو کہ بالکل درست نہیں ہے۔ وقف عوام کی عطیہ کی گئی جائیداد ہے اور اس پر ایسا قانون بنانا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ یہ قانون کسی بھی حالت میں مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔

«
»

تمل ناڈو: تاریخ میں پہلی بار گورنر یا صدر کی منظوری کے بغیر ۱۰؍قوانین کا نفاذ

وقف قانون کو چیلنج کرنےو الی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں 16 اپریل کوہوگی سماعت