نئی دہلی، 14 جولائی 2025:سپریم کورٹ نے پیر کو ایک حساس مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ملک میں آزادیٔ اظہارِ رائے کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ تبصرہ اُس وقت سامنے آیا جب عدالت کارٹونسٹ ہیمنت مالویہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی۔ مالویہ پر الزام ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی، آر ایس ایس کارکنوں اور ہندو دیوی دیوتاؤں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مبینہ قابل اعتراض کارٹون، ویڈیوز اور تبصرے شیئر کیے تھے
عدالت کا سوال: ’’یہ سب کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس اروند کمار پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مالویہ کے وکیل سے سوال کیا:
’’آپ ایسا سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟‘‘
عدالت نے کہا کہ ’’جو کچھ بھی ہو، یہ ضرور ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔‘‘
وکیل ورندا گروور کا دفاعی موقف
ہیمنت مالویہ کی طرف سے پیش ہونے والی سینئر وکیل ورندا گروور نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ سال 2021 کے دوران کووڈ-19 وبا کے دوران بنائے گئے ایک کارٹون پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا:
’’یہ مواد کسی کے لیے ناپسندیدہ یا بد ذوق ہو سکتا ہے، میں یہ تسلیم کرتی ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ جرم ہے؟ میرے مؤکل نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو قانونی طور پر قابل سزا ہو۔ عدالت نے بھی اس سے قبل تسلیم کیا ہے کہ جو بات ’گستاخی‘ محسوس ہو، وہ ضروری نہیں کہ ’جرم‘ بھی ہو۔‘‘
ورندا گروور نے کہا کہ ان کے مؤکل نے پوسٹ ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
ریاست مدھیہ پردیش کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نترراج نے اعتراض اٹھایا کہ یہ رویہ محض ناپختگی پر مبنی نہیں بلکہ اس میں بدنیتی شامل ہے۔ انہوں نے کہا:
’’ایسی حرکتیں بار بار کی جاتی ہیں۔ یہ صرف ناپختگی کی بات نہیں، اس سے زیادہ کچھ ہے۔‘‘
ہیمنت مالویہ کے خلاف مدھیہ پردیش کے شہر اندور کے لاسوڈیا پولیس اسٹیشن میں مئی 2025 میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی۔ شکایت وکیل و آر ایس ایس کارکن وِنَے جوشی کی جانب سے دائر کی گئی، جنہوں نے الزام لگایا کہ:
ہیمنت مالویہ نے سوشل میڈیا پر ایسے کارٹون، ویڈیوز، تصاویر اور تبصرے پوسٹ کیے جو وزیراعظم، آر ایس ایس کارکنان اور ہندو مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے جان بوجھ کر مذہبی جذبات مجروح کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی نیت سے مواد شائع کیا۔
پولیس نے مالویہ کے خلاف بھارتیہ نیایہ سنہیتا (BNS) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا، جن میں شامل ہیں:
دفعہ 196: مختلف برادریوں کے درمیان ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والے افعال
دفعہ 299: مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے دانستہ اور بدنیتی پر مبنی عمل
دفعہ 352: دانستہ توہین، جس سے امن و امان میں خلل کا خطرہ ہو
آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67-A: الیکٹرانک صورت میں فحش یا قابل اعتراض مواد کی اشاعت یا ترسیل
ذاتی آزادی کا سوال
ورندا گروور نے عدالت کو یاد دلایا کہ یہ معاملہ ذاتی آزادی اور شہری حقوق سے بھی جڑا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ:
’’کیا اس بنیاد پر کسی کو گرفتار کر کے حراست میں لینا مناسب ہے؟‘‘
انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ مذکورہ پوسٹ پر آج تک کوئی قانون و امن کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا ہے۔
بینچ نے حتمی سماعت کے لیے پیر، 15 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔ گروور نے تب تک عبوری تحفظ کی درخواست کی، جس پر عدالت نے کہا:’’ہم کل دیکھیں گے۔‘‘
یہ مقدمہ ایک بار پھر ہندوستان میں آزادیٔ اظہار اور اس کی آئینی حدود پر بحث کو تازہ کر رہا ہے۔ ایک طرف حکومت اور بعض حلقے اسے مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے خلاف مہم قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف وکلا اور آزادیٔ رائے کے حامی اسے سیاسی طنز اور آئینی حق کے دائرے میں دیکھ رہے ہیں۔




