اورنگ زیب کے مقبرہ کو اورنگ آباد سے ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل کی شرانگیزی کی وجہ سے ناگپور میں پھوٹ پڑنےوالے تشدد کے بعد منگل کو حالات معمول پر آگئے۔شہر کے ۱۰؍ سے زائد علاقوں میں کرفیو نافذ ہے اور حساس علاقوں میں پولیس کا فلیگ مارچ کیا گیا۔اس بیچ کہیں سے کسی تازہ واردات کی اطلاع نہیں ملی تاہم پولیس نے اقلیتی علاقوں سے ۸۰؍ سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
اس ضمن میں شائستہ شیخ نامی خاتون نے بتایا کہ’’میرے شوہر کا ۱۰؍ روز قبل انتقال ہوا۔ پیر کو میرے گھر پر میت کے دسویں کی تقریب تھی، جس میں شرکت کے لئے میرے رشتہ دار بھی آئے ہوئے تھے اور گھر کے تمام نوجوان بھی موجود تھے۔ تاہم اس دوران تشدد پھوٹ پڑا اور اس کے بعد پولیس میرے گھر میں جبراً داخل ہوئی اور یہاں موجود نوجوانوں اور رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا۔‘‘ شائستہ نے مزید بتایا کہ’’ ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ گھر کے شیشے توڑے گئے اور تمام دروازے بھی توڑ دیئے گئے۔ تشدد ہوا جب ہم سب گھر میں ہی تھے اور گیلری سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ پولیس ہمارے محلہ میں آئی اور لاٹھیوں اور پتھروں سے موجود تمام کاروں کے شیشے توڑ دئیے اس کے بعد ہمارے گھر میں گھسی اور بغیر کسی قصور کے ۷؍ نوجوانوں کو گھر سے گھسیٹ کر لے گئے۔‘‘ شائستہ شیخ نے مزید بتایا کہ ’’پولیس کی اس زیادتی کی وجہ سے میرے بیٹے کی ایک آنکھ بھی پھوٹ گئی۔‘‘ اس کارروائی کے بعد شائستہ اور ان کی بیٹی نصرہ پولیس سے گرفتار کیے گئے نوجوانوں کے بارے میں استفسار کر رہی ہیں، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں مل رہا۔ انہیں اسپتال جانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ دس دن پہلے اپنے شوہر کی موت اور اب بناء کوئی قصور کے دونوں بیٹوں کے گرفتار ہوجانے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔تشدداور پولیس کارروائی کے سبب مقامی افراد میں ڈراور خوف کا ماحول ہے۔
حالات کے بگڑنے کیلئے پولیس برابر کی ذمہ دار
ناگپور میں پیر (۱۷؍مارچ)کو ہونےوالے احتجاج کے دوران بھگوا عناصر نے اورنگ زیب کی ہری چادر میںلپٹی ہوئی علامتی قبر کو نذر آتش کیا ۔الزام ہے کہ مذکورہ علامتی قبل کو جس چادر میں لپیٹا گیاتھا اس پر مبینہ طور پر کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں۔شرپسندعناصر نذرآتش کرتے وقت اسے لاتوں اور جوتوں سےروند رہے تھے جس کا ویڈیو وائرل ہوگیا۔ اقلیتوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے خاطیوں کے خلاف کارروائی کی مانگ کی پولیس اسے نظر انداز کیا اورکارروائی کا مطالبہ کرنے کیلئے اکٹھی ہونےوالی بھیڑ کو ہی بھگانے کی کوشش کی۔ اس دوران افراتفری مچی اور پھربھیڑ اور پولیس کے درمیان جھڑپ جیسی کیفیت پیدا ہوگئی۔ پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور لاٹھی چارج کیا۔ اس تشدد میں کئی پولیس اہلکار اور متعدد عام شہری زخمی ہوئے ۔ مقامی افراد کا الزام ہے کہ اگر پولیس نے اگر بھگو عناصر کے خلاف بروقت کارروائی کی ہوتی اور انہیں قرآنی آیات کی بے حرمتی سے روکتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
ہنسا پوری میں دیر رات تشدد پھوٹ پڑا
اس تشدد کے بعد دیر رات ہنساپوری علاقے میں بھی تشدد اور آتش زنی کے واقعات پیش آئے۔ اطلاعات کے مطابق نقاب پوش شرپسندوں نے گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی اور انہیں آگ لگا دی۔ حالات کو مزید بگڑنے سے روکنےکیلئے انتظامیہ نے ۱۰؍حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا ہے