نئی دہلی :موجودہ دور میں یہ بات حقیقت ہے کہ جن کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہوتا ہے ،عدالت بھی انہیں کی چوکھٹ پر سر خم تسلیم کرتی ہے۔وہ جس کو چاہیں قصور وار قرار دے کر تختہ دار پر چڑھا دیں اور جسے چاہیں ہار پہنا کر عزت مآب کے تمغے سے سر فراز کریں ۔حالیہ دنوں میں عدالتوں کی جانب سے آنے والے احکامات تو یہی گواہی دے رہے ہیں۔ تبدیلیٔ مذہب کیس میں یوپی حکومت کے ذریعہ گرفتار کئے گئے مولانا عمر گوتم اور مولانا کلیم صدیقی کے معاملے میں واضح طور پر یہی نظر آ رہا ہے کہ
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
غیر قانونی تبدیلی مذہب کے الزام میں یو پی حکومت کے ذریعہ گرفتار کئے گئے مولانا عمر گوتم اور مولانا کلیم صدیقی سمیت 14 ملزمان کو قصور وار قرار دیا گیا جب کہ دیگر ملزم ادریس قریشی کو ہائی کورٹ سے اسٹے مل گیا۔رپورٹ کے مطابق این آئی اے اے ٹی ایس کی عدالت میں سیکشن 417، 120 بی، 153 بی، 295 اے، 121 اے، 123 اور سیکشن 3، 4، اور 5 کے تحت مجرم پائے گئے۔ تمام ملزمین کو این آئی اے اے ٹی ایس کورٹ کے جج وویکانند شرن ترپاٹھی کل سزا سنائیں گے۔
ابتدائی تفصیلات کے مطابق یو پی اے ٹی ایس تبدیلیٔ مذہب مقدمہ میں لکھنؤ سیشن عدالت نے مولانا کلیم صدیقی سمیت تمام ملزمین کو قصور وار ٹہرایا ہے۔ عدالت کل 11 ستمبر بروز بدھ کو سزا کا تعین کرے گی۔ مولانا سمیت تمام ملزمین کو تحویل میں لے کر جیل بھیج دیا گیا۔ جن دفعات کے تحت عدالت نے ان سب کو قصور وار ٹھہرایا ہے۔ اس کے مطابق ملزمین کو زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا اور کم سے کم دس سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ کل عدالت فریقین کے وکلاء کے دلائل کی سماعت کے بعد سزا کا تعین کرے گی۔
واضح رہے کہ مظفر نگر کے گاؤں پھلت سے تعلق رکھنے والے مولانا کلیم صدیقی کے زیر اہتمام شاہ ولی اللہ ٹرسٹ چلتا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا کلیم صدیقی، گلوبل پیس فاؤنڈیشن کے بھی چیئرمین ہیں۔ سال 2021 کے سمتبر ماہ میں ریاستی اے ٹی ایس نے مولانا کلیم صدیقی اور ان کے دیگر تین ساتھیوں کو میرٹھ سے (اے ٹی ایس نے) گرفتار کیا تھا۔ اے ٹی ایس نے الزام لگایا تھا کہ مولانا کلیم صدیقی ایسے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جو ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرنے میں ملوث ہیں۔ مبینہ طور پر مولانا کلیم صدیقی پر مذہب تبدیل کرانے کے علاوہ غیر ممالک سے اس کام کے لیے فنڈ جمع کرنے کا بھی الزام ہے۔ مولانا کلیم صدیقی پہلی شخصیت نہیں ہیں جن پر اس طرح کا الزام لگا کر انھیں گرفتار کیا گیا ہو، اس سے قبل کئی اسلامی اسکالرز پر ایسے الزامات لگے ہیں۔
جواب دیں