قوامون کا مفہوم: نکاح اور عائلی نظام کی بنیاد

محمد ناظم اشرف
دہرہ دون، اتراکھنڈ

قرآنِ حکیم سرچشمۂ ہدایت اور منبعِ معرفت ہے۔ اس کے اسرار و معانی اور احکام و حکمتیں ایسی وسعت و گہرائی رکھتی ہیں کہ انسانی عقل ان کا پورا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔ اسی بنا پر مفسرینِ کرام نے ہر دور میں اپنے اپنے فہم و ذوق کے مطابق قرآنی مضامین کی تشریحات کیں اور عربی و اردو سمیت مختلف زبانوں میں تفاسیر کی ایک وسیع دنیا چھوڑ دی۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ قرآن کے جملہ معانی و مطالب کا احاطہ کسی بشر کے لیے ممکن نہیں۔

انہی آیات میں سورۂ نساء کی ایک نہایت اہم آیت ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَآءِ
"مرد عورتوں پر قوام ہیں۔”

یہ مختصر سا جملہ دراصل ایک مکمل خاندانی نظام کا آئینہ دار ہے۔ اس میں نہ صرف لغوی بلکہ سماجی، اخلاقی اور شرعی پہلوؤں کا ایک جامع تصور پوشیدہ ہے۔

"قوّام” اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی بوجھ کو سہارا دے اور اسے سنبھال کر رکھے۔ جیسے پرانے طرز کے چہروں کے گھروں میں "ستون” یا "تھام” ہوتا تھا جس پر شہتیر اور چھان کا سارا بوجھ قائم رہتا تھا۔ آج کے دور میں یہی کردار "پلر” ادا کرتا ہے۔ قرآن نے مرد کو اسی ستون سے تشبیہ دی ہے جو پورے گھرانے کو سہارا دیتا ہے اور اس کا بوجھ اٹھاتا ہے

یعنی قوامیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاندان کی ذمہ داریوں کا بار مرد کے مضبوط کندھوں پر رکھا ہے، اور اس بار کو اٹھانے کی صلاحیت بھی اسی کو ودیعت فرمائی ہے۔

قوامیت کا مطلب صرف اتنا نہیں کہ مرد گھر کا سربراہ ہے، بلکہ یہ کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ جُڑے تمام افراد — والدین، بہن بھائی، بیوی اور اولاد — کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ قرآن و حدیث نے والدہ اور بیوی کے ساتھ حسن سلوک پر خاص زور دیا ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو۔”

یہی معیار اخلاقی عظمت کا پیمانہ قرار پایا۔ اس کے مظاہرہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو عزت دے، اس کے رشتہ داروں کے بارے میں خوشگوئی کرے، بیماری میں خدمت کرے، کھانے پینے میں اسے مقدم رکھے، اور ماں و بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی ناچاقیوں کو انصاف و حکمت کے ساتھ حل کرے۔

ہر گھر کا ایک مزاج اور ماحول ہوتا ہے۔ جب ایک لڑکی نئے گھر میں آتی ہے تو اس کے لیے یہ ماحول اجنبی ہوتا ہے۔ حسنِ سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ شوہر اسے اپنے گھر کے طور طریقے اور خاندان کی روش سے واقف کرائے۔ ورنہ معمولی باتوں پر جھگڑے جنم لیتے ہیں، جیسے کھانے پکانے یا میزبانی کے انداز پر تنقید و تانے جو گھروں کے تباہ و برباد ہونے بنیادی وجہ ہے،

اگر شوہر دانش مندی سے اپنی بیوی کو گھر کے نظام میں ڈھال دے تو گھر سکون و محبت کا گہوارہ بن جاتا ہے۔

مرد کا چوڑا سینہ اور مضبوط بازو صرف طاقت کی علامت نہیں، بلکہ اس میں وسعتِ ظرف اور صبر و استقلال بھی ہونا چاہیے۔ قوام وہی ہے جو بیوی کے ناز و نخرے برداشت کرے، اس کی کمزوریوں پر صبر کرے، اپنے بازوؤں کی طاقت سے پورے گھر کو جوڑ کر رکھے، اور اپنی ذمہ داریوں کا بار خوش اسلوبی سے سنبھالے۔

قوامیت کا یہی وہ قرآنی تصور ہے جو عائلی زندگی کا توازن قائم کرتا ہے، نکاح کو مضبوط بناتا ہے اور معاشرے میں سکون و رحمت کی فضا پیدا کرتا ہے۔ آج کے دور میں معاشرے کو سب سے زیادہ اسی عملی قوامیت کی ضرورت ہے۔

قرآن کلامِ محبت بھی اور کلامِ نصیحت بھی

این سی ای آر ٹی تنازعہ: تاریخ کے خول میں پروپیگنڈے کا چور… حسنین نقوی