قابض اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں شدت،بچے اور خواتین خصوصی ہدف

قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر اپنی نسل کشی کی جنگ 717 ویں دن بھی جاری رکھی۔ امریکی سیاسی اور عسکری پشت پناہی کے سائے تلے فضائی اور زمینی گولہ باری کا سلسلہ پوری شدت سے بڑھا دیا گیا۔ بھوک سے نڈھال اور دربدر شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے جبکہ عالمی برادری کی خاموشی اور بے حسی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔

ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق قابض فوج نے درجنوں فضائی حملے کیے، مزید قتل عام کیا اور دو ملین سے زائد بے گھر انسانوں کی اذیت بڑھا دی۔ سخت قحط کے سائے میں شہر غزہ پر سب سے زیادہ وحشیانہ بمباری کی گئی تاکہ اس کو مکمل طور پر خالی اور ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے۔

تازہ ترین صورتحال

طبی ذرائع نے تصدیق کی کہ آج پیر کی صبح سے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں متعدد شہری شہید ہوئے، خاص طور پر شہر غزہ میں جہاں بھوک، تباہی اور قتل عام ایک ساتھ بڑھ رہے ہیں اور قابض اسرائیل پوری آبادی کو اجاڑنے کے درپے ہے۔

تل الہوا محلے میں مسلسل بمباری سے گھروں میں آگ بھڑک اٹھی۔خانیونس کے مواصی علاقے میں اپنی خیمہ بستی میں قابض فوج کی گولیوں سے زخمی ہونے والی فلسطینی خاتون سہی ایاد الخرس زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئیں۔
قابض اسرائیلی طیاروں نے حی الزیتون کے شارع البرہام میں سکول الحریہ کے اطراف پر بم برسائے۔
تل الہوا میں اسرائیلی ڈرون کی فائرنگ سے دو شہری شہید ہوئے۔
النصیرات کے مغرب میں السوارحہ علاقے میں ڈرون حملے میں بے گھر خاندانوں کی خیمہ بستی پر بمباری کی گئی جس میں کئی شہادتیں اور زخمی ہوئے۔
حی الصبرہ میں شارع المغربی پر الدیری خاندان کا گھر نشانہ بنایا گیا، کئی شہید اور زخمی ہوئے۔
الشاطی کیمپ پر قابض فوج نے کئی فضائی حملے کیے۔
اسی کیمپ میں اسرائیلی کواد کوپٹر نے شہریوں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں۔
الزوایدہ کے مشرق میں حی الفاروق میں اسرائیلی ڈرون حملے سے گاڑی تباہ ہوئی جس میں معصوم بچہ مالک عبداللہ الزقزوق شہید اور دیگر زخمی ہوگئے۔
قابض فوج نے القدس اوپن یونیورسٹی کے جنوبی علاقے کو بھی نشانہ بنایا۔
تل الہوا اور شیخ رضوان کے رہائشی محلوں کے بیچ قابض فوج نے دھماکہ خیز گاڑیاں نصب کر کے مکانات کو اڑا دیا۔
خان یونس شہر پر بھی فضائی حملہ کیا گیا۔

نسل کشی کا تسلسل

قابض اسرائیل امریکہ کی کھلی پشت پناہی کے ساتھ غزہ کی پٹی پر نسل کشی کی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے۔ وزارت صحت کے مطابق اب تک 65 ہزار 283 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 66 ہزار 575 زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ 9 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں۔ قحط نے سیکڑوں زندگیاں نگل لی ہیں اور دو ملین سے زائد شہری جلاوطنی کی اذیت جھیل رہے ہیں۔

قابض اسرائیل نے معصوم بچوں کو خصوصی ہدف بنایا۔ 20 ہزار سے زائد بچے اور 12 ہزار 500 خواتین شہید ہوئیں جن میں قریب 9 ہزار مائیں شامل ہیں۔ ایک ہزار سے زائد نوزائیدہ بچے شہید ہوئے جن میں 450 وہ تھے جو جنگ کے دوران پیدا ہوئے اور بعد ازاں شہید کر دیے گئے۔

18 مارچ سنہ2025ء کے سیز فائر معاہدے سے قابض فوج کے انکار کے بعد سے اب تک 12 ہزار 724 فلسطینی شہید اور 54 ہزار 534 زخمی ہوئے۔

27 مئی سنہ2025ء کو قابض اسرائیل نے امداد کی تقسیم کے مقامات کو قتل گاہوں میں بدل دیا۔ صرف اس دن سے اب تک 2 ہزار 523 فلسطینی شہید، ایک لاکھ 84 ہزار سے زائد زخمی اور 45 لاپتہ ہوئے۔ اسرائیل اور امریکہ کی سرپرستی میں قائم نام نہاد "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” کو دراصل قتل اور غلامی کی نئی چال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

قحط اور خوراک کی کمی کے باعث 442 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 147 معصوم بچے شامل ہیں۔

شہداء میں 1 ہزار 670 طبی عملے کے ارکان، 139 سول ڈیفنس اہلکار، 248 صحافی، 173 بلدیاتی ملازمین، 780 امداد کی حفاظت کرنے والے پولیس اہلکار اور 860 کھلاڑی شامل ہیں۔

اب تک 15 ہزار سے زائد اجتماعی قتل عام کیے گئے۔ 14 ہزار سے زیادہ خاندان نشانہ بنے، جن میں سے 2700 خاندان مکمل طور پر مٹادیے گئے۔

سرکاری اعداد و شمار اور اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی نسل کشی نے غزہ کی 88 فیصد سے زائد عمارتیں تباہ کر دی ہیں اور نقصانات 62 ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچے ہیں۔ قابض اسرائیل نے اب تک غزہ کے 77 فیصد علاقے پر قبضہ جما کر وہاں کے مکینوں کو جبراً بے دخل کیا ہے۔

تعلیمی ڈھانچہ بھی ملیامیٹ کر دیا گیا۔ 163 سکول، جامعات اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے، 369 کو جزوی نقصان پہنچا۔ 833 مساجد مکمل اور 167 جزوی طور پر مسمار کر دی گئیں۔ 19 قبرستان بھی تباہ کر ڈالے گئے۔

کرناٹک میں دل کے دورے سے اچانک اموات میں تشویشناک اضافہ  : 45 سال سے کم عمر کے افراد کی تعداد زیادہ ، تین سالوں میں 1004 افراد کی موت

فلسطینی ریاست کا اعتراف کافی نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت