واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے منصوبے کا مکمل متن جاری کر دیا گیا ہے، جسے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئے موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ٹرمپ کے منصوبے کے نکات درج ذیل ہیں:
- غزہ کو ’’ڈی ریڈیکلائزڈ‘‘ اور دہشت گردی سے پاک علاقہ قرار دیا جائے گا تاکہ یہ اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔
- غزہ کی تعمیرِ نو کی جائے گی تاکہ وہاں کے عوام، جو طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہیں، بہتر زندگی گزار سکیں۔
- دونوں فریق منصوبہ قبول کرلیں تو جنگ فوری طور پر ختم کر دی جائے گی۔ اسرائیلی فوج مقررہ لائن تک پیچھے ہٹ جائے گی، اور تمام فوجی کارروائیاں بند ہوں گی۔
- اسرائیل کی طرف سے معاہدہ قبول کرنے کے 72 گھنٹے کے اندر تمام یرغمالیوں (زندہ یا جاں بحق) کو واپس کر دیا جائے گا۔
- تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 عمر قید قیدیوں اور 1700 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے غزہ کے باشندوں کو آزاد کرے گا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوں گے۔ مزید یہ کہ ہر اسرائیلی یرغمالی کی لاش کے بدلے 15 فلسطینی شہداء کی میتیں واپس کی جائیں گی۔
- وہ حماس اراکین جو پرامن بقائے باہمی کے وعدے پر ہتھیار ڈال دیں گے، انہیں عام معافی ملے گی۔ جو رکن غزہ چھوڑنا چاہے گا، اسے محفوظ راستہ دیا جائے گا۔
- معاہدے کے فوراً بعد بڑے پیمانے پر انسانی ہمدردی کی امداد غزہ میں داخل ہوگی، جس میں اسپتال، پانی، بجلی، سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی بحالی شامل ہوگی۔
- امداد اقوامِ متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانب دار اداروں کے ذریعے تقسیم ہوگی۔ رفح کراسنگ بھی اسی میکانزم کے تحت کھولی جائے گی۔
- غزہ کو ایک عارضی ٹیکنوکریٹک کمیٹی چلائے گی، جس میں فلسطینی ماہرین اور غیر جانبدار عالمی شخصیات شامل ہوں گی۔ اس کی نگرانی ’’بورڈ آف پیس‘‘ نامی ادارہ کرے گا، جس کا سربراہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے جبکہ دیگر عالمی رہنما بھی شریک ہوں گے۔
- غزہ کی تعمیرِ نو اور معاشی ترقی کے لیے ٹرمپ اکنامک ڈیولپمنٹ پلان پیش کریں گے، جس میں جدید شہروں کی طرز پر ترقیاتی منصوبے شامل ہوں گے۔
- غزہ میں خصوصی اکنامک زون قائم کیا جائے گا، جس کے لیے مختلف ممالک سے تجارتی معاہدے کیے جائیں گے۔
- کسی کو بھی زبردستی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جو چاہے گا، غزہ چھوڑ کر جا سکتا ہے اور واپس بھی آ سکتا ہے۔
- حماس اور دیگر عسکری گروہوں کو غزہ کی حکومت میں کسی بھی طرح کا کردار نہیں دیا جائے گا۔ ان کے تمام ہتھیار اور فوجی تنصیبات ختم کر دی جائیں گی۔
- علاقائی شراکت دار یہ ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر دھڑے معاہدے کی مکمل پابندی کریں گے۔
- غزہ میں ایک ’’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘‘ (ISF) تعینات کی جائے گی، جو فلسطینی پولیس کی تربیت کرے گی اور مصر و اردن کے تعاون سے سرحدوں کی نگرانی کرے گی۔
- اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا۔ جیسے ہی ISF کنٹرول سنبھالے گی، اسرائیلی فوج بتدریج غزہ سے نکل جائے گی۔ صرف ایک محدود حفاظتی پٹی برقرار رکھی جائے گی۔
- اگر حماس تاخیر کرے یا انکار کرے تو امدادی کارروائیاں صرف ان علاقوں میں ہوں گی جو ’’دہشت گردی سے پاک‘‘ قرار دیے جائیں گے۔
- اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے درمیان ’’بین المذاہب مکالمہ‘‘ شروع کیا جائے گا تاکہ ذہنیت اور بیانیہ کو تبدیل کیا جا سکے اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دیا جا سکے۔
- جب فلسطینی اتھارٹی اصلاحات مکمل کر لے گی، تو فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوگی۔ ٹرمپ نے اسے فلسطینی عوام کا بنیادی حق تسلیم کیا ہے۔
- امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان سیاسی مکالمہ شروع کرے گا تاکہ پائیدار امن اور خوشحالی کا راستہ نکالا جا سکے۔
تجزیہ
اگرچہ یہ منصوبہ جنگ بندی اور تعمیرِ نو کے وعدے کرتا ہے، لیکن ناقدین کے مطابق اس کے کئی نکات فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کو محدود کرتے ہیں۔ خاص طور پر غزہ کے معاملات کو عالمی کنٹرول میں دینے اور ’’ڈی ریڈیکلائزیشن‘‘ جیسے نکات مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے مترادف سمجھے جا رہے ہیں، کیونکہ یہ فلسطینی مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ لگتا ہے۔




