18مئی/2024ء(فکروخبر/ذرائع)غزہ میں جاری جارحیت پر اسرائیلی حکومت کے اندر اختلافات رواں ہفتے کھل کر سامنے آگئے جب وزیر دفاع نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے واضح حکمت عملی سامنے لانے کا مطالبہ کیا جب کہ فوجیں ان علاقوں میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف لڑنے کے لیے واپس آ گئیں جہاں وہ مہینوں پہلے لڑ رہی تھیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز ’ کی رپورٹ کے مطابق وزیر دفاع گالینٹ کا وہ بیان، جس میں جنہوں نے کہا کہ وہ غزہ میں فوجی حکومت قائم کرنے پر راضی نہیں ہوں گے، نتن یاہو کی طرف سے اس بارے میں کوئی ہدایت نہ ملنے پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی عکاسی کرتا ہے کہ لڑائی ختم ہونے کے بعد غزہ کو کون چلائے گا۔
وہ کابینہ میں موجود سینٹرسٹ 2 سابق فوجی جرنیلوں، بینی گینٹز اور گاڈی آئزن کوٹ جنہوں نے وزیر دفاع کے مطالبے کی حمایت کی اور سخت دائیں بازو کی قوم پرست مذہبی جماعتیں جن کی قیادت وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ اور داخلی سلامتی کے وزیر اتمار بین-گیویر کر رہیں جنہوں نے ان کے بیان کی مذمت کی، کے درمیان شدید تقسیم کو بھی سامنے لائے۔
دائیں بازو کے ’اسرائیل ٹوڈے‘ جریدے نے اپنے جمعرات کے ایڈیشن میں نیتن یاہو اور وزیر دفاع گیلنٹ لی مختلف سمتوں میں آمنے سامنے کھڑے ہوئے لی گئی ایک تصویر کے ساتھ یہ ہیڈلائن لگائی کہ’یہ جنگ جاری رکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے’۔
حماس کو ختم کرنے اور اسلامی تحریک کے زیر حراست تقریباً 130 یرغمالیوں کی واپسی کے علاوہ نیتن یاہو نے جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی واضح اسٹریٹجک ہدف بیان نہیں کیا، جنگ میں اب تک تقریباً 35 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اسرائیل عالمی سطح پر تیزی سے تنہائی کا شکار ہوگیا ہے۔
تاہم مغربی کنارے کے آباد کاروں کی تحریک کے حامی وزرا بین گویر اور اسموٹریچ کی حمایت سے انہوں نے جنگ کے بعد غزہ کو چلانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی کسی بھی قسم کی شمولیت کو مسترد کر دیا، فلسطینی اتھارٹی 3 دہائیاں قبل اوسلو عبوری امن معاہدے کے تحت قائم کی گئی تھی جسے عام طور پر بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ جائز فلسطینی گورننگ باڈی تسلیم جاتا ہے۔
نیتن یاہو اب تک حماس پر مکمل فتح کے اپنے عہد پر قائم ہیں، انہوں نے سی این بی سی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اس کے بعد غزہ کو ’غیر حماس سویلین انتظامیہ کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے جس میں مجموعی طور پر فوجی ذمہ داری اسرائیل کی ہو۔
اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے فلسطینی قبائلی رہنماؤں یا دیگر کو بھرتی کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایسے کسی رہنما کی شناخت ہوئی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی دوست عرب ملک مدد کے لیے آگے بڑھا ہے۔
چٹھم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریق پروگرام کے ساتھ ایسوسی ایٹ فیلو یوسی میکلبرگ نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’اسرائیل کے پاس آپشن یہ ہیں کہ یا تو وہ جنگ ختم کرے، اور فوج واپس بلالے، یا وہ وہاں اپنے تمام مقاصد اور ارادوں کی تکمیل کے لیے فوجی حکومت قائم کر ے، اور اس مقصد کے لیے وہ پورے علاقے پر کنٹرول کر ے، لیکن کب تک، کیونکہ جیسے ہی ہو علاقہ چھوڑ یں گے تو حماس دوبارہ ابھر کر سامنے آجائے گی۔یا۔
جواب دیں