نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج (22 ستمبر) دہلی فسادات کی مبینہ بڑی سازش کیس میں قید طالب علم رہنماؤں عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر، گلفشہ فاطمہ اور شفاء الرحمٰن کی ضمانت عرضیوں پر دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت 7 اکتوبر کے لئے مقرر کی ہے۔
جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ مرکزی عرضیوں کو ہی حتمی طور پر نمٹائیں گے۔ سماعت کے آغاز میں جسٹس کمار نے وضاحت کی کہ یہ کیس 19 ستمبر کو نہ سننے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بنچ پارٹنر جسٹس منموہن نے اس معاملے سے الگ ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی کیونکہ وہ کبھی سینئر وکیل کپل سبل کے چیمبر میں ایسوسی ایٹ رہ چکے تھے۔
سینئر وکلاء کپل سبل، اے ایم سنگھوی اور سدھارتھ دیو نے درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوکر کہا کہ یہ سب طالب علم رہنما ہیں جو پچھلے پانچ برس سے جیل میں ہیں۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ سماعت جلد مقرر کی جائے تاکہ وہ دیوالی سے پہلے رہا ہو سکیں۔
یہ عرضیاں دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ہیں جس میں ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواستیں خارج کر دی تھیں۔ یہ کیس ایف آئی آر نمبر 59/2020 کے تحت درج ہے، جس میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے یو اے پی اے اور تعزیراتِ ہند کی مختلف دفعات لگاتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ملزمان نے فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی ’’بڑی سازش‘‘ رچی تھی۔
اس کیس میں متعدد معروف طالب علم رہنما اور سماجی کارکن نامزد ہیں، جن میں طاہر حسین، خالد سیفی، آصف اقبال تنہا (جو 2021 میں ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں)، صفورہ زرگر (حمل کے سبب انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا)، دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال (ضمانت یافتہ) شامل ہیں۔ تاہم عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر، گلفشہ فاطمہ، شفاء الرحمٰن اور دیگر ابھی بھی جیل میں ہیں۔




