حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

(برادر عزیز مولوی حافظ کاشف اسماعیل رکن الدین ندوی)

موت تو برحق ہے اور مرنے کا ایک وقت متعین ہے، لیکن بعض افراد ایسے اچانک چلے جاتے ہیں کہ دیر تک یقین نہیں آتا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے اور اب اس دنیا میں ان سے ملاقات ممکن ہی نہیں ہے۔

ہمارے برادر عزیز مولوی حافظ کاشف بھی ایسے ہی رخصت ہونے والوں میں سے ہیں کہ ان کے انتقال کی خبر ہر جگہ پہونچی، سوشل میڈیا میں یہ بات عام ہوگئی، بعض مقامی چینلوں نے ان کا جنازہ لے جانے، نوائط کالونی تنظیم ملیہ جامع مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کئے جانے، نماز جنازہ سے پہلے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے استاد نائب قاضی جماعت المسلمین اور خود کاشف مرحوم کے استاد و مربی اور ان کے گھرانے و محلے کے مشیر ومرشد جناب مولانا انصار الخطیب صاحب ندوی مدنی زید مجدہ کی تعزیتی تقریر جس میں مولانا نے کاشف کی اچانک موت پر تعزیت و تسلی کے کلمات کے ساتھ اپنے اس نوجوان شاگرد ومسترشد کی بڑی اہم صفات وخوبیاں بیان کی تھی، وہ تقریر نشر کی جو میں نے مکمل سنی، ویڈیوز دیکھے، کاشف کے والد محترم جناب اسماعیل صاحب رکن الدین (رخمنا) اور کاشف کے بڑے بھائی ومربی برادرم مولوی عمر سیاف رکن الدین ندوی، اسی طرح ان کے ایک بڑے بہنوئی اور ہمارے عزیز دوست مولانا الیاس صدیقہ ندوی سے تعزیتی گفتگو کی، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بہت سے اساتذہ، ذمہ داران اور خود کاشف کے نگران وغیرہ نے بھٹکل کا ایک فرد اور ہمارے مادر علمی جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا فرزند ہونے کے اعتبار سے مجھ سے تعزیت کی، اس اندوہناک حادثے پر اپنے رنج وغم کااظہار کیا، مولوی کاشف اور ان کے خالہ زاد بھائی عزیزم مرحوم انعام اللہ عسکری ابنِ مولانا نعمت اللہ عسکری ندوی حفظہ اللہ جو رشتے میں میرے بھتیجے بھی لگتے ہیں ان دونوں مرحومین کے سرپرستوں کی خدمت میں کلمات تعزیت پیش کرنے یا پہنچانے کی گزارش بھی کی۔

ان سب کے باوجود مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ عزیزم کاشف ابھی زندہ ہے، ابھی ندوہ پہنچے گا، مسکراتے چہرے کے ساتھ میری خیریت دریافت کرے گا، شام کے کھانے کے لیے مجھے مولانا محمّد علی مونگیری ہاسٹل کے کمرہ میں بلانے آئے گا اور کہے گا "مولانا! چلیں وقت ہوگیا ہے” درجہ میں ملاقات ہوگی، مسکراتے ہوئے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ سبق میں حاضر ہوکر سبق سنے گا، کبھی مطالعے کے تعلق سے مشورہ کرے گا کہ "مولانا: کس کتاب کا مطالعہ کروں؟”

کاشف مرحوم نہ میرا ہم عمر تھا ناہی ان سے کوئی بہت پرانے اور سالوں کے تعلقات تھے، سال گزشتہ اس نے جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے عالمیت مکمل کرکے ندوہ میں تکمیل کے درجے میں داخلہ لیا اور اس سے کافی سال پہلے غالباً لوک ڈاؤن سے پہلے اپنے بھائی مولوی ابراہیم رکن الدین ندوی کے ساتھ ایک مرتبہ ندوہ حاضر ہوا تھا تو اس وقت سرسری سی ملاقات ہوئی تھی، اسی موقع پر میرا بڑا بیٹا عبداللہ خطیب بھی اپنے چھوٹے ماموں مولوی حافظ سفیان سراج عجائب ندوی کے ساتھ مولانا معظم صاحب شاہ بندری ندوی (استاد مکتب جامعہ کاری گدے وامام مسجد فاطمہ؛ مولانا عبدالباری اسٹریٹ) کی قیادت میں ندوہ دیکھنے کے لئے آیا ہوا تھا، ان سب کی اس وقت کی ایک تصویر بھی بعض گروپ میں وائرل ہو رہی ہے، البتہ کاشف کے بڑے بھائی ومربی برادرم مولوی عمر سیاف رکن الدین ندوی سے ان کی ندوے کی طالب علمی کے دور سے جب تک ان کا قیام ندوے کے احاطے میں رہا اس وقت تک بڑے اچھے تعلقات رہے، ایک دسترخوان پر کھانا، عشاء بعد کی مستقل چہل قدمی وغیرہ۔

کاشف کے کچھ صفات ایسے تھے کہ جن سے بھی وہ ملتا ملاقات کرتا تو لوگ اس کو یاد کرتے اور یاد رکھتے تھے، انہی بعض خوبیوں کی بناء پر مجھے بھی ان کی بہت یاد آرہی ہے اور ایک طرح سے ان کا معصوم سا صاف ستھرا مسکراتا چہرہ نظر کے سامنے ہے:

اس کی ایک اھم خوبی اپنے بڑوں اور اساتذہ کا ادب واحترام، ان سے ادب سے پست آواز میں بات کرنا، چلتے پھرتے وقت ان کے پیچھے رہنا، ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملنا، کوئی بات پوچھنی ہو یا مشورہ کرنا ہو تو سلیقہ سے بات کرنا، گزشتہ تعلیمی سال ندوہ میں خوب ملاقاتیں رھیں، ایک ہی ڈائینگ ہال میں  ہم سب بھٹکلی افراد کھانا کھاتے تھے، وہاں بھی دیکھا بلکہ شام کے کھانے کے لیے عام طور پر ساتھ ہی چلنا ہوتا تھا، وہ اپنے مغرب بعد پڑھائی والے ہال سے فارغ ہو کر ہمارے ہاسٹل والے کمرے میں آجاتے اور ایک طرح سے اطلاع کرتے کہ اب عشاء کا وقت قریب آرہا ہے۔

 کلاس روم میں ہفتہ میں تین دن ملاقات ہوتی، ان کی وہ کلاس ایک دوسری بلڈنگ میں لگتی تھی اور میں بھی ایک دوسری کلاس میں پڑھا کر وہاں حاضر ہوتا لیکن دیکھتا کہ ہمیشہ بالکل اول وقت میں حاضر ہونے والے چند طلبہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔

اسی طرح نماز کا بڑا پابند، اس کے نگران نے خود مجھے بتایا کہ کھبی اس کو نماز کے لیے اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑھی۔ کپڑے بھی صاف ستھرے سنجیدہ کلر کے سادہ پہنتا تھا، اپنے عمر کے عام نوجوانوں کی طرح نہیں کہ گہرے رنگ یا شوخ کلر والے یا زیادہ اسٹائل کے ہوں۔

قرآن کریم کی تلاوت کا بڑا اھتمام تھا، خود حافظ قرآن بھی تھا، رمضان میں تراویح سناتا، امسال بھی رمضان میں تراویح سنائی تھی، تراویح سے واپسی پر اور بسا اوقات تراویح کے لئے جاتے ہوئے میری ملاقات بھی ہوئی۔

خدمت کا جذبہ اور سلیقہ بھی تھا، ایک مرتبہ عشاء کی نماز کے کافی دیر بعد ایک بڑے مدرسہ کے دس بارہ نوجوان علماء ملاقات کے لئے حاضر ہوئے، میں ایک دار المطالعہ (اسٹڈی ہال) میں تھا، اس دن وہاں طلبہ بھی بہت کم تھے تو ان سے مہمانوں کو وہیں بلا لیا، عزیزم مولوی حافظ کاشف اسماعیل مرحوم بھی میرے ساتھ وہیں مطالعہ کے لیے آئے ہوئے تھے، پھر میں نے اس سے کہا کہ "کاشف! ذرا نیچے کسی کینٹن والے سے کہہ دو کہ چائے اور بسکٹ کسی ملازم کے ہاتھ بھجوا دے، ان مہمانوں کی مہمان نوازی ہو جائے گی”خیر وہ تو بڑا سعادت مند تھا، فوراً چلا گیا، تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ خود ہی چائے بسکٹ اٹھا کے لارہا ہے، پھر اس کو سلیقے سے مہمانوں کے سامنے رکھا اور پیش کرتا رہا، اس دوران میں مہمانوں سے باتیں کرتا رہا، جب وہ چلے گیے تو میں نے اس سے کہا کہ ارے بھئی آپ کیوں لئے آیے، کسی ملازم سے کہہ دیتے؟ تو انہوں نے کہا کہ مولانا وہ لوگ مشغول تھے، کوئی حرج نہیں؛ پھر چائے بسکٹ کے پیسے پیش کیے کہ کاشف یہ روپئے رکھ لو تو اس نے ایسے چہرے کے ساتھ لینے سے انکار کیا کہ میں اگر زبردستی اس کو پیسے دے دوں گا تو ان کو بہت تکلیف ہوگی، ایک خادم کی طرح خدمت بھی کی اور پیسے لینے سے بھی سختی اور محبت سے انکار کیا، اللہ تعالیٰ اس کو ان سب کا بہترین بدلہ عطافرمائے، آمین۔

کاشف دیکھنے میں بظاھر دبلا پتلا تھا، اپنے بھائیوں سے بھی صحت میں کمزور نظر آتا تھا، لیکن بڑا ایکٹیو، پھرتیلا اور مارشل آرٹ (کراٹے)کا ماہر تھا، ندوہ میں بھی صبح صبح ورزش کرتا تھا بلکہ وہ بعض اپنے دوستوں کو سکھا بھی رہاتھا، لیکن ٹھنڈی کا موسم شروع ہوتے ہی سیکھنے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی، کاشف البتہ اخیر تک ورزش کرتا رہا، ہم لوگ (میں اور مولانا فیصل صاحب ارمار ندوی) روزانہ صبح چھل قدمی کے لیے  نکلتےتو ان کو دیکھتے اور تعجب کرتے تھے کہ بڑی سخت ٹھنڈک کے باوجود کاشف مستقل مزاجی اور پابندی کے ساتھ ورزش کررہا ہے، بعد میں ان کے بڑے بھائی مولوی عمر سیاف نے بتایا کہ وہ تیراکی میں بھی بڑا ماہر تھا لیکِن مقدرات کو کون ٹال سکتا ہے۔

اسی طرح سے ندوۃ کے نظام، اصول و ضوابط کا بھی بڑا پابند تھا، بلا ضرورت کے  گیٹ سے باہر نہیں نکلتا تھا اور جب جانا بھی ہوتا تو نگران سے اجازت لے کر یا جمعہ کے دن جب عام اجازت ہوتی، یہ بات ان کے نگران نے بھی بتائی۔

یہ سب صفات اس کی نیک وشریف والدہ کی تربیت کا اثر اور ایک مدت تک مدینہ منورہ میں قیام پذیر ان کے والد گرامی محترم اسماعیل صاحب رکن الدین کی مدینہ منورہ میں کی گئی دعاؤں کی برکت، ان کے مادر علمی واساتذہ کی توجہات ورہنمائی کا فیض واثر اور ان سب سے بڑھ کر اللہ کا فضل و احسان۔

موت بھی شہادت والی ملی، پانی میں ڈوب کر مرنے والے کو حدیث مبارکہ میں شہید کہا گیا، طالب علمی کی موت، ندوہ سفر کا ارادہ اور آگے تفسیر میں اختصاص کا پورا عزم تھا اور اس کے لیے اپنے بڑے بھائی مولوی عمر سیاف کے ساتھ ان کا ٹکٹ بھی بن چکا تھا، حدیث میں ہے "من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا إلى الجنة” گویا کاشف جنت کا راستہ ہی طئے کر رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ ہمارے اس عزیز کی مغفرت فرماۓ، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے خالہ زاد بھائی اور ہمارے بھتیجے معصوم انعام اللہ عسکری کی مغفرت فرماۓ، درجات بلند عطا فرمائے،

ان دونوں مرحومین کے والدین، بھائی بہن، اعزہ و اقارب تمام حضرات کو صبر جمیل اور ان کا نعم البدل نصیب فرمائے۔

(یہ مضمون تو عزیزم کاشف کے انتقال کی خبر ملتے ہی لکھنا شروع کردیا تھا، شعری عنوان بھی لکھ دیا تھا لیکن ندوہ کی بعض مصروفیات کی بناء مکمل ہوتے ہوتے تاخیر ہوگئی)

مولوی کاشف مرحوم کے بعض ساتھیوں نے ان پر مضامین کا ایک مجموعہ شائع کرنے کا ارادہ بھی کیا ہے اللہ تعالیٰ آسان فرمائے۔

میں اپنی طرف سے اور طلبائے بھٹکل مقیم ندوۃ العلماء اور جن اساتذہ ندوہ وذمہ داران ندوہ  نے مجھ سے تعزیت کی یا تعزیتی کلمات پیش کرنے کی گزارش کی ان سب کی طرف سے مولانا نعمت اللہ صاحب عسکری ندوی حفظہ اللہ بانی وصدر جمعیت الحفاظ بھٹکل وامام وخطیب مخدومیہ جامع مسجد بھٹکل واستاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور دونوں مرحومین کے سرپرستوں، اعزہ و اقارب کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین یارب العالمین۔

«
»

ایک چراغ اور بجھا

ناگہانی آفات اور حادثاتی اموات میں عبرت اور نصیحت کے پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے