26 ستمبر کو بریلی میں اتحادِ ملت کونسل (آئی ایم سی) کے دھرنا احتجاج کے دوران پیش آئے ہنگامہ معاملے نے ایک بار پھر یوپی پولیس کی کارروائیوں کو سوالوں کے گھیرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ پولیس نے آئی ایم سی کے سات رہنماؤں پر 15،000 روپے انعام کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ سبھی دھرنے کے بعد سے فرار ہیں۔ تاہم سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں حکومت کی منظم سازش اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش ہیں۔
پولیس کے مطابق اب تک 83 افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیجا جا چکا ہے، جن میں اتحادِ ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا خان بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 180 نامزد اور 2500 نامعلوم افراد کے خلاف دس مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب پولیس کی خصوصی ٹیمیں دیگر کارکنان کی گرفتاری کے لیے مسلسل چھاپے مار رہی ہیں۔
اسی دوران بریلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (بی ڈی اے) اور میونسپل کارپوریشن کی جانب سے بلڈوزر کارروائیاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں آئی ایم سی کے ترجمان نفیس کے شادی ہال کو مسمار کر دیا گیا۔ بی ڈی اے کا کہنا ہے کہ یہ تعمیر بغیر منظوری کے کی گئی تھی، تاہم مقامی لوگوں اور تنظیموں کا مؤقف ہے کہ یہ پرانی فائل کو بنیاد بنا کر انتقامی کارروائی ہے، جس کا مقصد احتجاج میں شریک مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔
سیاسی اور سماجی حلقوں نے ان واقعات پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ نے بریلی میں جاری کارروائیوں کو "حکومتی سازش” قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یوپی میں حکومت معصوموں پر بلڈوزر چلا رہی ہے اور سپریم کورٹ کے احکامات کی صریح خلاف ورزی کر رہی ہے”۔ انہوں نے اعلان کیا کہ عام آدمی پارٹی کی 16 رکنی ٹیم 7 اکتوبر کو بریلی جا کر متاثرین سے ملاقات کرے گی۔
واضح رہے کہ یہ پورا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب مولانا توقیر رضا خان نے یوپی کے کانپور میں۱۲ ربیع الاول کے موقع پر ایک جلوس کے دوران ائی لو پروپھیٹ محمد ﷺ کے پوسٹر کے سلسلہ میں ہندوتوادی تنظیموں کی شکایت پر کئی مسلم نوجوانوں کے خلاف درج مقدمات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ دھرنا پرامن تھا، مگر پولیس کے لاٹھی چارج اور طاقت کے استعمال کے بعد صورت حال بگڑ گئی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے پولیس کی کارروائیوں کو غیر منصفانہ اور آئین کے بنیادی اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویہ بند کیا جائے اور دھرنے کے دوران پیش آئے واقعات کی عدالتی جانچ کرائی جائے۔




