ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے (قاری امیر حسن صاحب)

حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی
(سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ٬مالیگاؤں)

۲۵؍ فروری سنیچر کے دن برادرم مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی مد ظلہ کافون آیا سلام و دریافت خیریت کے بعد انہوں نے پوچھا حضرت قاری امیر حسن صاحب کے بارے میں خبر ملی؟یہ جملہ سنتے ہی دل دھڑک اٹھا ،نفی میں جواب پاکر انہوں نے خبر وحشت اثر سنا ہی دی کہ جمعہ کے دن حضرت قاری صاحب کا بمبئی میں وصال ہوگیا اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔ بے ساختہ زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا، دل وفورِ غم سے لبریز ہوگیا ، عشاء کے بعد ہفتہ واری درس قرآن تھا کسی طرح طبیعت کو آمادہ کر کے درس قرآن دینے گیا ،درس قرآن کے بعد ان کے وصال کا اعلان کر کے ان کے لئے دعائے مغفرت و رفع درجات کی۔لوٹ کر گھر آیا اور تنہائی ملی تو یادوں کا سفر شروع ہوگیا ۔ان کا سراپا نگاہوں میں پھرنے لگا ان کی خصوصیات اور کمالات کے نقوش تازہ ہوتے رہے ،آہ کہ کیسا بابرکت وجودہمارے درمیان سے اٹھا لیا گیا اور کیسی عظیم شخصیت داغ مفارقت دے گئی،جو نہیں جانتے وہ تو نہیں جانتے لیکن جو ان کی شخصیت سے واقف تھے دل کا یہ احساس ہے کہ انہوں نے بھی قاری صاحب کو پوری طرح نہ پہچانا،فنائیت و تواضع کی چادر نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا اور اسی میں لپٹے ہوئے وہ رب کریم کی جوارِ رحمت میں حاضر ہوگئے ۔اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتننا بعدہ۔
داغِ فرقتِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
یادش بخیر!۱۹۹۷؁ء میں والد محترم مولانا محفوظ الرحمان قاسمی ؒ(سابق شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم،مالیگائوں)کا سانحۂ ارتحال پیش آیا اس وقت راقم الحروف مدرسہ بیت العلوم میں زیر تعلیم تھا ۔حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی ؒ کے خاص ایماء اور خالِ معظم مولانا محمد شعیب مظاہری ؒ ( مجاز صحبت حضرت شاہ صاحب ؒ) کے اصرار پر مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی میں تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے حاضرہوا اور سال بھر وہاں کی مبارک اور نورانی فضا میں رہ کر قرآن مجید کے اکیس پارے حفظ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔یہیں حضرت قاری صاحب ؒ کی زیارت کی،دبلا پتلا جسم ، سفید نورانی لمبی داڑھی،بہت ہی سادہ لباس ، کم گو ، کم آمیز،نگاہ ہمیشہ نیچی ، آواز بہت ہی نرم اور پیاری ، باوجود اس کے کہ میں بہت کم عمر تھا اور ان کی عظمت اور قدروقیمت سے ناآشنا ،لیکن انہیں بار بار دیکھنے اور دیکھتے رہنے کا جی چاہتا تھا ۔ میں درجۂ حفظ کا طالب علم تھا اور وہ درجہ عالمیت میںدرس دیتے تھے ،اس لئے بہت کم براہِ راست گفتگو کا موقع ملا لیکن بعد نماز عصر مدرسہ کے احاطے میں منعقد ہونے والی اصلاحی مجلس میں ان کی بیش قیمت گفتگو سننے کی سعادت بار بار حاصل ہوئی۔ عام معمول یہ تھا کہ حضرت تھانوی ؒ کی کوئی کتاب اپنے دستِ مبارک میں رکھتے اس کا کچھ حصہ پڑھ کر سناتے ، پھر تھوڑی سی تشریح فرماتے ،کہیں عبارت مشکل ہوتی تو اسے آسان کر کے بیان فرماتے ،اس دور کی جو مٹی مٹی یادیں حافظے کی امانت ہیں اسے زندگی کا سرمایہ سمجھتا ہوں ، ان سے سنی ہوئی باتیں کل تک نصیحت تھیں آج وصیت ہیں ،قابلِ قدر بھی ، لائقِ عمل بھی!
حضرت قاری صاحب ؒ نہ بے مثال خطیب تھے ، نہ صاحبِ طرز انشاء پرداز و ادیب ،نہ نامور مصنف و مولف تھے ، نہ باکمال شاعرمنتظم وہ تو تواضع و عبدیت کا مجسم پیکر تھے اور عاجزی و فنائیت کی اعلی مثال ۔استقامت ان کی زندگی کا سب سے نمایاں عنوان ہے اور دین کی خدمت ان کا سرمایۂ حیات۔وہ محبت و معرفت ربانی کے ذوق چشیدہ اور خدا رسیدہ ایسے انسان تھے جن کے رگ و ریشے میں عشقِ خداوندی اسی طرح رچا بسا تھا جیسے شاخِ گل میں بادِ سحر گاہی کا نم۔طالب علمی کے دور میں انہوں نے جس راہ کو اختیار کیا زندگی کے نشیب و فراز اور اتار چڑھائو میں وہ اسی پر جمے رہے ،ڈٹے رہے اور ہر لمحہ منزلِ مقصود کی طرف بڑھتے رہے ۔تاآنکہ فرشتۂ اجل نے آکر کہہ دیا ٰٓیاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ ارْجِعِیْ ٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ۔وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔

بزرگوں کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے ،ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است ہر باخدا انسان پر خدا کی کسی صفت کی تجلی ہوتی ہے ،اشرف المدارس ہردوئی میں اپنے دور کے دو عظیم بزرگوں کو دیکھنے ،سننے اور برتنے کا موقع ملا ۔ ایک تو حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلیفۂ اجل حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحبؒ اور دوسرے ہمارے ممدوح قاری صاحب ؒ ۔اول الذکر پر خدائے ذوالجلال کی صفاتِ جلالیہ کا پرتو صاف محسوس ہوتا ،منکرات پر سخت نکیر،اتباع سنت پر پورا زور ، بے اصولی سے نفرت ، بے ضابطگی پر تنبیہ، ہر ایک چیز کے لئے ضابطے کی تعیین اور اس پر عمل کی سخت ہدایت یہ ساری وہ چیزیں تھیں جو تھوڑا ساوقت گزارنے والے کوبھی محسوس ہوجاتیں۔ ثانی الذکر(قاری صاحب ؒ) صفات جمالیہ کے زیر سایہ ،صفتِ رحمۃ للعالمینی کی چادر میں لپٹے ہوئے ،آواز و انداز ،تدریس و خطاب ، اصلاح و تربیت ہر ایک چیز میں نرمی و مروت ، وہ جو قرآن نے رسول کریم ﷺ کے بارے میں زبان و دل کی نرمی کی بات کہی ہے (فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم،آل عمران،آیت۱۵۹)اس کا بہت ہی پیارا نمونہ تھے قاری صاحب ؒ ۔سال بھر کا عرصہ کچھ مختصر نہیں ہوتا اس پوری مدت میں کبھی ان کی بلند آواز سننے تک کا موقع نہیں ملا،نہ کبھی کسی کو ڈانٹا ،نہ سزا دی ، نہ سختی سے پیش آئے۔ان کے یہاںان سب کے اظہار کا ذریعہ تھا پیاری اور مسرو ر کن مسکراہٹ اور شفقت سے بھرپور نگاہِ دل نواز۔
نہ بادہ ہے نہ صراحی ہے نہ دورِ پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگین ہے بزمِ جانا نہ
ان کے ان اوصاف کا اندازہ لگانے کے لئے ایک واقعہ سن لیجئے ،مدرسہ اشرف المدارس میں جس عمارت میں درجۂ حفظ ہے اسی کی بالائی منزل میں درجہ عالمیت کے طلبہ پڑھتے ہیں، قاری صاحب روزانہ پڑھانے کے لئے درجۂ حفظ کے سامنے سے گذرتے ہوئے اوپر تشریف لے جاتے اور واپسی میں بھی ان کا گذر درجۂ حفظ کے سامنے سے ہوتا ۔ایک دن پڑھا کر قاری صاحب زینے سے جو اترے اور سامنے نگاہ پڑی تو دیکھا کہ ایک طالب علم جسے کلاس کے دوران گفتگو کرنے کی سزا دی گئی ہے وہ درجہ حفظ کے سامنے کھلے صحن میں کان پکڑے ہوئے اور منہ میں اینٹ کا ایک ٹکڑا پکڑے ہوئے کھڑا ہے (یہ سزا دراصل حضرت شاہ ابرارالحق صاحب ؒ کی مقرر کردہ تھی کہ درجہ میں گفتگو کرنے والے طلبہ کو صحن میں کان پکڑوا کر اور صاف ستھرا دھلا دھلایا اینٹ کا ٹکڑا منہ میں رکھوا کر تھوڑی دیر کے لئے کھڑا کروادیتے۔یہ سزا اب بھی اشرف المدارس میں جاری ہے اور تازہ واردان بساطِ علم اس سے گزرکر سزا بھی پاتے ہیں اور لطف بھی اٹھاتے ہیں ، منہ میں پکڑائے جانے والے اس اینٹ کے ٹکڑے کو شاہ صاحبؒ دواء اللغو فرمایا کرتے تھے۔)قاری صاحب مرحوم نے جو یہ دیکھا تو گویا تڑپ گئے فوراً طالب علم کے پاس تشریف لائے سلام کیا ،دستِ شفقت سر پر پھیرا اینٹ کا ٹکڑا اپنے ہاتھ سے منہ سے نکالا اورنگاہ بھر کر طالب علم کو دیکھا، ہلکا سا مسکرائے اور پھر اسے لئے ہوئے درجۂ حفظ کے استاد کے پاس گئے ،استاذ دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے ،بڑے ہی نرم اور محبت بھرے بلکہ عاجزی سے لبریز لہجے میں قاری صاحب نے استاذ سے سفارش کی ’’ انہیں درجے میں بٹھا لیجئے ‘‘استاذ نے صرف یہ کہا کہ جو حضرت کا حکم ہو ۔ پھر وہ اپنے معمول کے مطابق سر جھکائے ،نگاہ نیچی کئے ہوئے ذکر و فکر میں مستغرق آگے بڑھ گئے اور۔۔۔۔۔۔۔ اب تو وہ اتنا آگے اور ایسی جگہ چلے گئے جہاں سے واپسی کا امکان ہی نہیں لیکن ان کی شفقت کی یاد دل میں لئے ہوئے وہ طالب علم ابھی اس جہانِ فانی میں زندہ ہے اور جگ بیتی کی شکل میں آپ بیتی سنا رہا ہے ۔ چودہ سال گذر گئے لیکن راقم الحروف پر گذرا ہوا یہ واقعہ کل کا واقعہ معلوم ہوتا ہے اور ان کی وہ ایک نگاہ آج بھی یاد آتی ہے ،کیسی شفقت تھی اس نگاہ میں ،سرزنش اور تنبیہ کے شائبے تک سے پاک، محبت ،خلوص اور اپنا پن لئے ہوئے ۔
حضرت قاری صاحب ؒ فیض یافتہ اور دست گرفتہ تھے حضرت قطب عالم شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کے ، ۱۳۵۵؁ھ میں بہار کے ضلع سیوان کے ایک دیہات سے جب وہ ہندوستان کے عظیم دینی ادارے مدرسہ مظاہر العلوم میں بحیثیت طالبِ علم داخل ہوئے اسی وقت سے حضرت شیخ سے ان کا جو تعلق قائم ہوا تو حضرت کی زندگی کے آخر تک قائم رہا ۔شیخ و مرشد کی خصوصی توجہات اور مستجاب دعائیں انہیں نصیب ہوتی رہیں،حضرت شیخ کے یہاں قلت کلام اور ترکِ اختلاط پر بہت زور تھا ، حضرت قاری صاحب ؒ نے ان دونوں باتوں پر جس طرح عمل کیا اور اسے نبھا کر دکھایا اسے ان کی سب سے بڑی کرامت کہا جاسکتا ہے ۔

حضرت قاری صاحب ؒ کی ایک بڑی اہم خصوصیت اوقات کی حفاظت اور ہر قسم کے لایعنی سے احتیاط تھی ،لایعنی گفتگو، لایعنی کام جیسے وہ جانتے ہی نہیں تھے ۔بشری ضروریات پر بھی بہت تھوڑا وقت صرف فرماتے ،چوبیس گھنٹے میں کھانے کے نام پر شاید صرف پندرہ منٹ صرف ہوتے ہوں گے ، کھانا بھی بہت ہی مختصر ہوتا ،لقم تلقم ظہرۃً کا عملی نمونہ انہیں کے یہاں دیکھنے کو ملا ، ایک مرتبہ قریب سے انہیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھا ،چونکہ حضرت شاہ ابرار الحق صاحب ؒ کے گھرانے سے بہت مانوس تھا اور خاندانی تعلقات اور کم عمری کی وجہ سے گھر کے اندر بھی آتا جاتا تھا ایک مرتبہ حضرت شاہ صاحب کے یہاں سے کھانا لے کر حضرت قاری صاحب کے یہاں پہنچانے گیا ،کھانا کیا تھا ایک پیالے میں تھوڑی سی دال جس میں روٹی کو باریک کرکے بھگودیا گیا تھا،حجرے میں اجازت لے کر داخل ہوا اب یاد نہیں کہ حضرت کس کام میں لگے ہوئے تھے اتنا یاد ہے کہ عرض کیا کہ حضرت کھانا کھالیجئے میں باہرٹھہرتا ہوں برتن واپس لے جائوں گا۔حضرت نے ارشاد فرمایا ٹھہر جائیے اور فوراً پیالہ ہاتھ میں لے کر روٹی سمیت دال کو پی لیا اور پیالہ واپس کردیا ، اس کھانے میں بمشکل تین چار منٹ صرف ہوئے ہوں گے ۔ اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوہوجاتی ہے کہ اللہ کے بندے اپنی ضروریات پر کس طرح کم سے کم وقت خرچ کرکے زیادہ اوقات دینی خدمت اور یادِ الہی میں بسر کرتے ہیں ۔یہی جذبۂ بے تاب ہے جو روٹیوں کے بجائے ستو پھانکنے کی ترغیب دیتا ہے اور ہمہ وقت یادِ الہی میں مشغول رکھتا ہے۔
عیش کا نام لے نہ تو ہم سے
ہم کو فرصت کہاں ترے غم سے
جب یہ عالم ترا نظر آیا
اٹھ گیا دل تمام عالم سے
تصوف و سلوک کی بنیادی تعلیم عاجزی اور بے نفسی ہے جس کا خلاصہ حضرت تھانویؒ کے بقول یہ ہے کہ ہر مومن سے فی الحال اور ہر کافر سے فی المآل اپنے آپ کو کمتر سمجھے،معرفت نفس اور محبت الہی جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے انسان اپنے عیوب سے واقف اور دوسروں کے عیوب سے بے خبر ہوتا جاتا ہے ۔پھر زندگی میں یہ احساس تازہ ہوجاتا ہے کہ ’’اپنی نگاہ میں کوئی برا نہ رہا‘‘سلوک کی راہ میں یہ مقام بہت دیر سے اور آخر میں آتا ہے ۔ اسی لئے صوفیاء نے یہ بھی کہا ہے آخر ما یخرج من قلوب الصدیقین حب الجاہ۔( صدیقین کے دل میں سے بھی سب سے آخر میں شہرت کی محبت نکلتی ہے)جب تک نفسانیت کی کثافتیں انسان پر چھائی رہتی ہیں معرفت کی لطافتیں اس پر آشکارا نہیں ہوتیںاور جب عاجزی کا احساس اور بے نفسی کا جوہر پیدا ہوجاتا ہے تو قربِ خداوندی کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اسی لئے کسی عارف نے کہا ہے ۔’’لا طریق اقرب الی اللہ من العبودیۃ ولا حجاب اغلظ من الدعوی ولا ینفع مع الاعجاب والکبر عمل واجتہاد ولا یضر مع الذل والافتقار بطالۃ یعنی بعد الفرائض‘‘(بندگی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا سب سے قریبی راستہ ہے اور دعوے سے زیادہ بڑا اور دبیز کوئی حجاب نہیں ،خود پسندی کے ساتھ محنت و کوشش کچھ کام نہیں دیتی اور عاجزی و مسکنت کے ساتھ نوافل میںسستی نقصان نہیں پہنچاتی)عاجزی اور بے نفسی کا یہ جوہر حضرت قاری صاحب ؒ کو منجانب اللہ ودیعت کیا گیا تھا ۔انہیں دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے لئے زبانِ رسالت سے نکلی ہوئی وہ بات یاد آتی ہے کہ جو کسی مردہ انسان کو زمین پر چلتا پھرتا دیکھنا چاہتا ہو وہ ابو بکر صدیق کودیکھ لے۔مرزا مظہر جانِ جاناں کے حالات میں بھی خود ان کا بیان کیا ہوا یہ ملفوظ ملتا ہے کہ میں نے تیس سال مجاہدات میں گزارے تب کہیں جاکر فنائیت کا مقام حاصل ہوا ۔اور اب حال یہ ہے کہ جب لوگ آکر مجھے سلام کرتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ میری لاش کو سلام کررہے ہیں ۔تواضع و فنائیت کا اونچا مقام بتمام و کمال بہت کم انسانوں کو ملتا ہے ۔قاری صاحب ؒ کی زندگی اس کے لئے بہترین مثال ہے ۔ مدرسہ اشرف المدارس میں انہوں نے تقریباً ستر سال درس و تدریس اور رشد و ہدایت میں گزارے ۔ اس طویل ترین مدت میں وہ اپنی شخصیت کو نمایاں اور مشہور کرنے کی بھر پور کوشش کرسکتے تھے لیکن ان کے پیشِ نظر تو رضائے حبیب تھی جس کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو مٹایااور اس طرح مٹایا کہ ان کی عاجزی و بے نفسی نے ان پر گمنامی کے پردے ڈال دئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی ان کے گزر جانے کو اس طرح نہیں محسوس کیاجارہا ہے جس طرح محسوس کیا جانا چاہئے تھا ۔شیخ عبدالحفیظ مکی (خلیفہ حضرت شیخ)کی مشہورکتاب’’ موقف ائمۃ الحرکۃ السلفیۃ من التصوف والصوفیۃ‘‘ میں کسی عارف کے حوالے سے یہ حکایت درج ہے کہ ’’دخلت علی اللہ من ابواب الطاعات کلھافما دخلت من باب الا رأیت علیہ الزحام فلم اتمکن من الدخول حتی جئت باب التذلل والافتقار فاذا ہوا اقرب باب الیہ واوسعہ ولا مزاحم فیہ ولا معوق فما ھو الا ان وضعت قدمی فی عتبتہ فاذا ہوا سبحانہ قد اخذ بیدی وادخلنی علیہ‘‘( میں نے تمام طاعتوں کے ذریعے خدا تعالی تک پہونچنے کی کوشش کی ہر دروازے پر میں نے بڑی بھیڑ پائی سوائے عاجزی اور فقر کے دروازے کے ، جب میں اس دروازے پر حاضر ہوا تو میں نے اسے سب سے

زیادہ کشادہ اور سب سے قریبی دروازہ پایا جہاں نہ کوئی مزاحمت کرنے والا تھا اور نہ رکاوٹ پیدا کرنے والا میں نے جیسے ہی وہاں قدم رکھا تو اللہ پاک کی رحمت نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا)یہ حکایت جہاں ان بزرگ کی زندگی اور احوالِ زندگی کو بیان کرنے والی ہے وہیں حضرت قاری صاحب ؒ کی زندگی کا بہترین نقشہ بھی ہے ،قاری صاحب ؒ کی زندگی سے معمولی واقفیت رکھنے والا انسان بھی جب اس حکایت کو پڑھے گا تو فوراً اس کی نگاہ کے سامنے قاری صاحب کی دلنواز اور بے نفس شخصیت ابھر آئے گی ۔
حضرت قاری صاحب ؒ پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں بہار کے ضلع سیوان کے ایک ایسے دیہات میں پیدا ہوئے جہاں بدعات و خرافات کا غلبہ تھا ۔ پیدائش کا سال خود آپ کو بھی یقینی طور پر معلوم نہ تھا،البتہ آپ کے پاسپورٹ پر سن پیدائش ۱۹۲۶؁ء درج ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں اور گائوں سے قریب ایک بستی میں حاصل کی ، پھر جون پور کے مدرسہ کرامتیہ میں داخلہ لے کر فارسی اور ابتدائی عربی کا درس لیا۔وہاں سے ۱۳۵۵؁ھ میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپورتشریف لائے ،جہاں سات سال تک زیر تعلیم رہ کر سندِ فراغت حاصل کی ۔فراغت کے بعد ۱۳۶۳؁ھ میں عظیم عالمِ دین اور مشہور ترین بزرگ حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کے مشورے سے مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔جس کا سلسلہ تادمِ آخر جاری رہا۔ابھی کچھ عرصہ قبل مدینہ منورہ کے کچھ معتقدین نے یہ پیش کش کی کہ آپ مدینہ منورہ کی شہریت قبول فرمالیں اور وہیں قیام فرما ہوکراپنے انفاسِ قدسیہ سے لوگوں کو مستفیدفرمائیں لیکن آپ نے صرف اس وجہ سے قبول نہ فرمایا کہ یہ مدرسے والوں کے ساتھ بے وفائی ہوگی ۔
زمانہ طالب علمی ہی میںآپ قطب زماں حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ سے بیعت ہوئے اور ذکر کی تعلیم لی۔ حضرت رائے پوری کے وصال کے بعد اپنے مشفق استاذ اور پچھلی صدی کی عظیم ترین شخصیت حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ سے تجدید بیعت کی درخواست کی لیکن حضرت شیخ نے یہ کہہ کر انکار کردیا ’’میں حضرت مدنی اور حضرت رائے پوری سے جو لوگ بیعت ہوں انہیں دوبارہ بیعت نہیں کرتا ہوں البتہ خدمت کے لئے حاضر ہوںاور جو معمولات حضرت رائے پوری نے بتلائے تھے کرتے رہو ۔‘‘چنانچہ آپ نے حضرت شیخ سے اصلاحی مراسلت اور رابطہ قائم رکھا ۔ حضرت شیخ کی خصوصی توجہات آپ پر تھیں اس کا اندازہ اس واقعے سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت قاری صاحب ؒ اپنے مرشد کی خدمت میں کچھ عرصہ گذار کر ہردوئی واپس ہورہے تھے تو حضرت شیخ نے واپسی کے وقت بہت گہری نظر سے آپ کو دیکھا جس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت قاری صاحب کے قلب پر حضرت شیخ کی اس نظر کے دو نشانات عرصے تک معلوم ہوتے رہے اوران نشانات میں روشنی اور نور بھی محسوس ہوتا رہا ۔اصلاح و تربیت کے مرحلوں سے گذرنے کے بعد۲۸؍رمضان المبارک ۱۳۸۵؁ھ میں جمعہ کے دن حضرت شیخ نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازاجس کا واقعہ بڑا عجیب و غریب ہے اس لئے خود حضرت قاری صاحب ؒ کے سادہ اور دلنشیں الفاظ میں نقل کررہا ہوں ۔’’اجازت دینے سے قبل اس ناکارہ نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ حضرت مرشدنا قدس سرہ مدینہ پاک سے جس تاریخ کو سہانپور آرہے تھے اسی تاریخ میں اخیر شب میں دیکھا کہ حضرت میرے کمرے میں آئے اس وقت میں ہردوئی میں تھا حضرت کے آنے کا علم تاریخ وغیرہ کا نہ تھا بعد میں حساب لگایا تو معلوم ہوا وہی تاریخ تھی ، غرض حضرت ؒ آئے اور ایک خوبصورت ڈبیہ جیسے روشنائی کی ڈبیہ ہوتی ہے لاکر مجھے دی اور فرمایا:’’تمہارے لئے لایا ہوں‘‘ خواب ہی میں فرطِ مسرت کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کہ حضرت کی کتنی بڑی شفقت ہے کہ ہزاروں انسان حضرت کے چاہنے والے ہیں ان کے لئے نہیں لائے اور مجھ ناکارہ کے لئے جو کسی لائق نہیں ہے لائے حضرت کی کتنی بڑی مہربانی ہے ۔
غرض خواب سے بیدار ہوا تو دل میں خوشی معلوم ہوئی ۔ اب خواب لکھ کر حضرت کے یہاں ڈاک سے روانہ کیا ۔ حضرت نے جواب مرحمت فرمایا کہ :’’پیارو! مادی چیزیں تو نہ اپنے لئے لایا نہ دوسروں کے لئے ۔ باقی دعا سے کسی کے لئے غافل نہیں رہا ، باقی تمہارا خواب مبارک ہے جب آئو پرچہ ساتھ لیتے آئو۔‘‘ ہاں ایک بات لکھنا بھول گیا ۔ حضرت کو جب دیکھا تو اس قدر خوبصورت ہیں کہ چاند کا ٹکڑا ہے ۔
حتی کہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا یعنی مورخہ ۲۸؍رمضان بروز جمعہ قبل اذان عصر ۱۳۸۵؁ھ احقر سراپا تقصیر کو مرشد ی و مولائی حضرت اقدس نے اپنے معتکف میں طلب فرمایا بذریعہ بھائی ابو الحسن صاحب ، احقر حاضر خدمت ہوا تو ارشاد ہوا کہ :

’’یہ جبہ پہن لو‘‘(جو حضرت کا مستعملہ تھا خوشبو بے انتہا تھی کئی ماہ رہی)چنانچہ حسب ارشاد پہن لیا، پھر ارشاد فرمایا کہ :’’آج سے تمہیں اجازت دیتا ہوں بیعت کی ۔ یہ امانت ہے حفاظت کرنا۔‘‘ اس معاملہ سے ناکارہ کو حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی حتی کہ سکتہ میں آگیا اور شام تک مبہوت سا رہاحتی کہ بخار کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ یہ سب کچھ حق تعالی نے اپنے لطف و کرم سے حضرت شیخ ؒ کے قلب میں ڈالا اس لئے یہ صورت ظاہر ہوئی ۔ وہ جبہ گاہے اخیر شب میں حصول برکت کی نیت سے پہن لیتا ہوں اور بطور تبرک محفوظ رکھتا ہوں ۔ ‘‘
اجازت و خلافت کے بعد آپ بہت ہی خاموشی کے ساتھ مسترشدین و سالکین کی خدمت میں مشغول رہے اور زندگی کی آخری دہائی میں آپ کی طرف رجوعِ عام ہوا اوربڑے بڑے علماء اور دین کے عظیم خادم آپ کے حلقہ بگوش ہوئے ،سالکین و مریدین کی خدمت کا یہ سلسلہ زندگی کے آخری دن تک جاری رہا۔
حضرت قاری صاحب نے جیسی مبارک ، پاکیزہ اور قابل رشک زندگی گزاری اللہ نے ویسی ہی اچھی موت انہیں نصیب فرمائی جمعہ کی مبارک رات ، تہجد کا وقت ، نماز سے فراغت پاکر باوضو گویا کہ سید الاولیاء کو سیدالایام میں لقائِ حبیب کا پروانہ عطا کیا گیا اوراس عطا کے لئے خاص اس وقت کا انتخاب کیا گیا جس میں روزانہ رب کریم سے راز و نیاز کی سعادت جانے والے کو ملا کرتی تھی ۔ موت کا بہانہ سینے کا درد بنا جو ظاہری نگاہوں میں سینے کا درد تھا اور باطنی نگاہوں میں ایک عاشقِ صادق کے دل میں محبوبِ حقیقی سے ملنے کی کسک ، جس نے قلب کی حرکت بند کردی اور محب کو محبوب اور مخلوق کو خالق تک پہنچادیا۔ ؎
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
برسوں برس پہلے حضرت قاری صاحب نے مدینہ منورہ میں اپنے مرشد گرامی حضرت شیخ الحدیث ؒ کی خدمت میں ایک سال گزارا تھا ۔ جب سال بھر گزرنے کے بعد مرشد سے واپسی کی اجازت ملی تو روانگی کے وقت تنہائی میں قاری صاحب نے حضرت شیخ سے عرض کیا تھا حضور میرے لئے حسن خاتمہ کی دعا فرمادیجئے تو حضرت شیخ نے فرمایا تھا انشاء اللہ حسن خاتمہ بھی ہوگا ، دعا دینے والے اور دعا لینے والے دونوں جوارِ رحمت میں جا چکے لیکن دعا کی قبولیت کا مشاہدہ ہم جیسے عاجز و ناکارہ انسانوں کے سامنے ہے۔حکیم مشرق اور صاحب دل شاعر اقبال کا کیسا غضب کا شعر یاد آگیا۔
قسمت نگر کہ کشتۂ شمشیرِ عشق یافت
مرگے کہ زاہداں بہ دعا آرزو کنند
حضرت قاری صاحب چلے گئے اور جانا کسے نہیں؟ لیکن جس شان سے وہ گئے ہیں وہ ہم جیسوں کے لئے اپنے اندر بڑا سبق رکھتی ہے اور اب جس طرح شانِ کریمی کی جانب سے ان کی ناز برداری ہورہی ہوگی اور ان پر رحمت و مغفرت کے پھول برسائے جارہے ہوں گے اور زندگی کے تھکے ہوئے مسافر کو جس طرح نعمتوں سے نوازا جارہا ہوگا اس کا تصور ہی بڑا پرکیف ہے اور عزیز و لذیذ بھی۔ان کی زندگی استقامت کا اعلی نمونہ تھی اور ان کی موت خدا تعالیٰ کے یہاں ان کے اونچے مقام کا اظہار و اعلان۔
ابر رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے

محمد عمرین محفوظ رحمانی

کربلااوراسلام

مدھیہ پردیش: محرم جلوس کے دوران "ہندو راشٹر” کا بینر جلانے کے الزام میں 4 افراد گرفتار