امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر بمباری کی دھمکی کے بعد، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت نے امریکہ کو اپنی فضائی حدود اور ایئر بیسز کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
ایک سینئر امریکی عہدیدار نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ خلیجی ممالک نے صاف الفاظ میں واشنگٹن کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہونا چاہتے، جس میں ایندھن کی فراہمی اور ریسکیو آپریشنز بھی شامل ہیں۔
یہ امریکی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو یمن میں حوثیوں پر فضائی حملوں کے ذریعے ایران پر دباؤ ڈالنے اور اسے جوہری معاہدے پر مذاکرات کے لیے مجبور کرنے کی حکمتِ عملی اپنا رہی تھی۔ خلیجی ممالک کے اس فیصلے سے ایران کو حوصلہ مل سکتا ہے اور وہ مذاکرات میں مزید سخت مؤقف اختیار کر سکتا ہے۔
امریکی حکمت عملی میں تبدیلی: ڈیگو گارشیا کا کردار
خلیجی ممالک کے انکار کے بعد، امریکہ نے بحرِ ہند میں واقع ڈیگو گارشیا کے فوجی اڈے پر بمبار طیارے تعینات کر دیے ہیں۔ یہ اڈہ ایران سے تقریباً 5,300 کلومیٹر دور ہے اور امریکی بمبار طیارے یہاں سے بآسانی ایرانی اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ماضی میں بھی امریکہ نے عراق پر حملے کے دوران سعودی عرب کی پابندی کے بعد اسی اڈے کا استعمال کیا تھا۔ سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق، امریکی فضائیہ نے یہاں کم از کم پانچ B-2 بمبار طیارے تعینات کیے ہیں، جو 30,000 پاؤنڈ وزنی "بنکر بسٹر” بم لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو زیرِ زمین ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے ضروری سمجھے جا رہے ہیں۔
ایران کا ردعمل اور ممکنہ جوابی کارروائی
ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ اگر امریکہ یا اسرائیل نے اس پر حملہ کیا تو وہ خلیجی ممالک کے تیل کے مراکز کو نشانہ بنائے گا۔ تاہم، اگر امریکہ ڈیگو گارشیا سے حملہ کرتا ہے تو ایران کے لیے جوابی کارروائی میں خلیجی ممالک کو نشانہ بنانے کا جواز کمزور ہو سکتا ہے۔
ایرانی حکام کو خدشہ ہے کہ امریکہ اپنے جدید ترین ڈرونز اور میزائل لانچنگ سسٹمز کو استعمال کر کے حملہ کر سکتا ہے، جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق ایران کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ ممکنہ امریکی حملے سے پہلے ہی ڈیگو گارشیا کو نشانہ بنا لے۔
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر
صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی مائیک والٹز کے مطابق، امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کی مکمل تباہی چاہتا ہے، جبکہ ایران اس مطالبے کو مسترد کر چکا ہے۔
اس دوران، امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی میں بھی اضافہ کر دیا ہے، دو طیارہ بردار بحری جہاز تعینات کیے جا چکے ہیں، جبکہ امریکی فوجی کارگو پروازوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی فوج کے 40,000 سے زائد اہلکار پہلے ہی خلیجی ممالک میں موجود ہیں، جہاں وہ اہم ایئر بیسز اور نیول بیسز پر تعینات ہیں، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین شامل ہیں۔
نتیجہ: خطے میں ایک نیا جنگی بحران؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں اور فوجی نقل و حرکت سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ ایک نئے ممکنہ جنگی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے، تو یہ پورے خطے کو ایک بڑے تصادم میں دھکیل سکتا ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔