دہرادون: دون ویلی کے پرانے رہائشیوں کے لیے اشروڑی پولیس چیک پوسٹ کے قریب واقع وہ چھوٹی سی مسجد ہمیشہ ایک پہچان رہی ہے جو مبینہ طور پر سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ منگل کو اتراکھنڈ کے محکمہ جنگلات نے پولیس فورس اور بلڈوزر کے ساتھ پہنچ کر اس مسجد کو خالی کروا کر تالے لگا دیے۔
اطلاعات کے مطابق، مسجد کے امام کو اپنا سامان نکالنے کے لیے کہا گیا اور اس کے بعد مسجد کو سیل کر دیا گیا۔ مسلم برادری کے نمائندوں نے سخت احتجاج کیا مگر انتظامیہ نے کارروائی جاری رکھی۔
یہ مسجد محکمہ جنگلات کی زمین پر واقع ہے اور وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی مہم “مزار جہاد” کے تحت نشانہ بنائی گئی۔ اس مہم کے دوران گزشتہ سال سے اب تک 600 سے زیادہ مزارات اور مذہبی ڈھانچے گرائے جا چکے ہیں۔
عدالتوں کا موقف
رضیہ بیگ (سابق چیئرپرسن بار کونسل اتراکھنڈ)، لطافت حسین (سینئر لیڈر اتراکھنڈ کرانتی دل)، نعیم قریشی (مسلم سیوا سنگٹھن) اور مجرا گاؤں کے رہائشی خورشید احمد نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن کوئی راحت نہیں ملی۔ بعد میں سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی۔
سپریم کورٹ کی بنچ جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس ستیش چندر شرما نے 3 ستمبر 2025 کو ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا لیکن مسجد کو توڑنے سے روک دیا۔ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے حکم دیا کہ مسجد میں کوئی مذہبی سرگرمی نہیں کی جا سکتی اور اگر کوئی وہاں داخل ہونے کی کوشش کرے تو حکام کارروائی کر سکتے ہیں۔
انتظامیہ کی کارروائی اور مسلم برادری کا ردعمل
مسلم نمائندوں کا کہنا ہے کہ عدالت نے مسجد کو سیل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور مسجد کی دیکھ بھال جیسی غیر مذہبی سرگرمیاں ممنوع نہیں ہیں۔ ان کے مطابق، محکمہ جنگلات نے بعد میں سیل ہٹا کر مسجد کو تالا لگا دیا اور خندق کھود کر راستہ بند کر دیا تاکہ کوئی اندر نہ جا سکے۔ اس کے ساتھ مسجد کے بورڈ بھی ہٹا دیے گئے۔
خورشید احمد نے الزام لگایا کہ خندق کھودنا اور مسجد کو تالا لگانا سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ چاروں درخواست گزاروں نے اس کارروائی کے خلاف محکمہ جنگلات کو خط لکھا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ریاست میں کئی ہندو مندر بھی جنگل کی زمین پر ہیں، جن میں چمپاوت ضلع کا پورناگیری مندر شامل ہے، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔




