آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کی سرپرستی میں آل انڈیاملی کونسل کے زیر اہتمام وقف ایکٹ 2025 اور اس کے اثرات پر غور و خوض کے لیے ایک اہم اجلاس نہرو آڈیٹوریم، مدینہ ایجوکیشن سنٹر، نامپلی میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس میں ملک کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی، جن میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، بیرسٹر اسدالدین اویسی، رکن پارلیمان عمران مسعود، رکن پارلیمان فہیم قریشی، اور حضرت مولانا عظمت اللہ حسینی شامل ہیں۔
مقررین نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت وقف کے ادارے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور انہوں نے واضح طور پر کہا کہ نیا وقف ایکٹ ملک بھر میں وقف اداروں کے وجود کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے۔
اہم مطالبات:
وقف ایکٹ 2025 کو مسترد کیا جائے:
اجلاس میں زور دے کر کہا گیا کہ یہ ایکٹ اقلیتی حقوق پر حکومتی مداخلت کی ایک خطرناک کوشش ہے، لہٰذا اسے فوری طور پر مسترد کیا جائے۔
ملک گیر احتجاج کا اعلان:
ملک بھر میں اس ایکٹ کے خلاف احتجاجات کیے جائیں گے، اور شہریوں سے اپیل کی گئی کہ وہ بڑی تعداد میں شرکت کریں اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کریں۔
سیکولر طاقتوں سے اشتراک:
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ملک کی سیکولر جماعتوں اور تنظیموں سے اشتراک عمل کیا جائے تاکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
ریاستی اسمبلیوں سے قراردادیں منظور کروائی جائیں:
اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ تمام ریاستی اسمبلیاں وقف ایکٹ 2025 کے خلاف قراردادیں منظور کریں تاکہ اس ایکٹ کے خلاف ایک مضبوط قانونی اور سیاسی موقف اختیار کیا جا سکے۔
اجلاس کی جھلکیاں:
تقاریر و مباحثے:
اجلاس میں ممتاز مقررین نے خطاب کیا، جن میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور بیرسٹر اسدالدین اویسی شامل تھے۔ مقررین نے وقف ایکٹ کے ممکنہ خطرات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
قراردادوں کی منظوری:
اجلاس میں متفقہ طور پر وقف ایکٹ 2025 کو مسترد کرتے ہوئے قراردادیں منظور کی گئیں، اور ملک گیر احتجاج و سیکولر طاقتوں سے اشتراک پر زور دیا گیا۔
اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ وقف ایکٹ کے خلاف سیاسی و قانونی سطح پر مؤثر مہم چلائی جائے، اور عیسائی برادری سے بھی رابطہ کیا جائے کیونکہ مستقبل میں ان کے ادارے بھی اسی نوعیت کے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔