مظفر نگر کی ہندو اکثریتی کالونی’ بھارتیہ کالونی‘ میں ندیم نامی شخص کے مکان خریدنے اور اس میں مبینہ طور پر نماز ادا کرنے پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ شدت پسند تنظیموں کا الزام ہے کہ اس مکان میں مبینہ طور پر نماز پڑھی جا رہی تھی۔ جب پولیس کے ساتھ شدت پسند تنظیم کے لوگ وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں کئی تنظیموں کے دفاتر چل رہے ہیں اور گھر کے اندر کئی کمرے بنائے جا رہے ہیں۔شدت پسند تنظیموں کا الزام ہے کہ اس عمارت میں مدرسہ چلانے کا بھی منصوبہ ہے اور یہاں باقاعدہ نماز بھی پڑھی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس مکان کو مسلم سماج نے خالی نہیں کیا تو اس کالونی کے ہندو نقل مکانی کریں گے۔ فی الحال موقع پر پولیس مامور ہے۔آس پاس بھی پہرہ سخت کردیا گیا ہے۔ شدت پسندتنظیموں نے دو دن کا وقت دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ مکان بیچ کر یہ لوگ یہاں سے نہیں گئے تو مزید احتجاج کیا جائے گا۔
اتوار کو مکان خرید نے کیخلاف سمن، کویتا اور اروند شرما کی قیادت میں مظاہرہ ہوا۔ شدت پسند تنظیموں نے مکان میں پہنچ کر ہنگامہ کیا۔ مسلم نام والے جو بینر لگے ہوئے تھے انہیں پھاڑ د یا۔
موقع پر پہنچنے والی پولیس انہیں سمجھا نے بجھانے کی کوشش کی۔ پولیس کےایک ترجمان نے بتایا کہ اس معاملے میں تفتیش کی جارہی ہے۔خبر لکھے جانے تک پولیس کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ پولیس نے نماز اور وہاں دفتر کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔
اس سلسلے میں جمعیۃ علماء اتر پردیش کے سیکریٹری قاری ذاکر حسین، ضلع صدر مفتی بنیامین اور بزرگ عالم دین مولانا محمد معاذ حسن قاسمی نے کہا کہ نماز تو دین کا ستون ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے۔کوئی اپنے گھر میں تنہا یا گھر کے افراد کو لے کر نماز ادا کرتا ہے تو اس پر کیسے اعتراض کیا جا سکتا ہے؟انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا بھائی چارہ مثالی ہے۔شر پسند مٹھی بھر ہوتے ہیں جو اس بھائی چارے کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں پولیس کا فرض ہے کہ وہ سمجھوتہ کرائے۔کوئی نہیں مانتا ہے تو اس کیخلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جلدہی متعلقہ افراد سے ملیں گے اور صورتحال سے حکام کو آگاہ کریں گے۔
جواب دیں