19 اگست کو احمدآباد کے منی نگر میں واقع سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں ایک دسویں جماعت کے طالب علم کو چاقو گھونپ دیا گیا۔ جھگڑے میں ملوث دو طلبہ میں سے ایک ہندو اور دوسرا مسلمان تھا۔ لیکن واقعے کے فوراً بعد ہندوتوا تنظیموں نے اس لڑائی کو مذہبی رنگ دے دیا۔
اگلے ہی روز وشو ہندو پریشد (VHP) اور بجرنگ دل کے کارکنان نے سینکڑوں افراد کو اسکول کے باہر جمع کیا۔ نعرے بازی، توڑ پھوڑ اور تشدد کے بعد صورتِ حال اس قدر بگڑ گئی کہ والدین اور مقامی لوگوں نے اسکول کے گیٹ پر احتجاج شروع کر دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ’’اسکول میں کسی مسلم طالب علم کو داخلہ نہ دیا جائے۔‘‘
ایک خطرناک رجحان
یہ واقعہ کوئی الگ تھلگ حادثہ نہیں ہے۔ گجرات کے مختلف شہروں میں معمولی اسکولی جھگڑوں کو ہندوتوا تنظیمیں ہندو-مسلم تنازع میں بدل رہی ہیں۔ کھیل کے دوران یا کلاس روم میں ہونے والی تکرار کو ’’سازش‘‘ یا ’’جہاد‘‘ قرار دے کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سیاسی کارکن بپن بھائی گدھوی، جو احمدآباد اسکول کے باہر موجود تھے، نے بتایا کہ ہجوم ’’اسکول جلا دو، اساتذہ کو بھی جلاؤ‘‘ جیسے نعرے لگا رہا تھا جبکہ پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی تھی۔
ودالی کا واقعہ
احمدآباد سے تقریباً 150 کلومیٹر دور ودالی میں بھی 21 اگست کو ایک اسکول کے اندر طلبہ کے درمیان جھگڑا ہوا، جس میں ایک ہندو طالب علم کے چہرے پر خراشیں آئیں۔ مقامی ہندوتوا تنظیموں نے فوراً اسکول کے باہر ہنگامہ کھڑا کر دیا اور انتظامیہ پر دباؤ ڈالا کہ تمام مسلم طلبہ کو ’اسکول لیونگ سرٹیفکیٹ‘ جاری کر کے نکال دیا جائے۔ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، اے بی وی پی اور دیگر تنظیموں نے احتجاجی ریلیاں نکالیں اور بند منظم کیا۔
تعلیم گاہیں نشانے پر
یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوتوا تنظیمیں اسکولوں کو بھی اپنی نظریاتی لڑائی کا میدان بنا رہی ہیں۔ اقلیتی تعلیمی ادارے، خصوصاً عیسائی اسکول، زیادہ ہدف بن رہے ہیں۔ احمدآباد کے واقعے کے بعد مشتعل ہجوم نے اسکول پر الزام لگایا کہ وہ ’’مسلمان طلبہ کو تحفظ دے رہا ہے‘‘ اور مطالبہ کیا کہ سبھی مسلم طلبہ کو باہر نکالا جائے۔
مسلم طلبہ پر دباؤ
ودالی کے سیٹھ سی جے ہائی اسکول میں اس سال جنوری میں بھی ایک مسلم طالب علم کو دو ہندو اساتذہ نے بری طرح مارا تھا، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوا۔ والدین کے احتجاج کے باوجود اسکول انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ بعد میں اس طالب علم کو کلاس اور امتحانات سے محروم کر دیا۔ اس کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ دیگر بچوں کو بھی اسکول میں اسی بنیاد پر تنگ کیا جاتا ہے۔
سماجی کارکن حذیفہ اجینی کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے ذریعے بچوں کو آپس میں دشمن بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق:
’’جب اسکولوں پر حملے ہوں اور پولیس خاموشی اختیار کرے تو یہ بچوں کے درمیان مذہبی تقسیم کو مزید گہرا کرتا ہے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات دونوں برادریوں کے درمیان باقی رہ جانے والے روابط بھی توڑ دیتے ہیں۔
یہ واقعات محض مقامی تنازع نہیں بلکہ ایک بڑے بیانیے کا حصہ ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے حالیہ خطاب میں مسلمانوں کو تہواروں پر ’’خون بہانے‘‘ اور ’’فسادات کرانے‘‘ کا الزام لگایا۔ سیاسی سطح پر مسلمانوں کو ’’مسلسل خلل ڈالنے والی برادری‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور یہی منطق اسکولوں تک پہنچ چکی ہے جہاں بچوں کے جھگڑوں کو ’’ہندو بمقابلہ مسلم‘‘ بنا دیا جاتا ہے۔
اسی دوران این سی ای آر ٹی (NCERT) کی نئی نصابی کتابوں میں بھی تاریخ کو دوبارہ لکھنے، بابری مسجد انہدام اور گجرات فسادات جیسے واقعات کو حذف کرنے اور مسلمانوں کو ’’بیرونی‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ کے ذہنوں میں فرقہ وارانہ سوچ کو مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔




