کتوں کو انصاف ملنا سماجی کارکنوں سے زیادہ آسان

اعجاز اشرف

نوٹ: یہ تحریر ایک انگریزی کالم کا اردو ترجمہ ہے

مجھے توقع تھی کہ 2 ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے 2020 دہلی فسادات کیس میں ملزم بنائے گئے 18 افراد میں سے 9 کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کیے جانے پر عوامی غصہ پھوٹ پڑے گا۔ یہ امید مجھے اس شدید ردعمل سے ملی تھی جو 11 اگست کو سپریم کورٹ کے اس حکم پر ظاہر ہوا تھا کہ دہلی اور اس سے متصل شہروں کی بلدیاتی انتظامیہ اپنی بستیوں سے آوارہ کتوں کو مستقل طور پر ہٹا دے۔ مگر میری یہ توقع غلط ثابت ہوئی۔ شاید یہ تلخی سے زیادہ حقیقت کا اظہار ہے کہ میں کہوں: اس ملک میں کتوں کو انصاف ملنے کا امکان مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

سپریم کورٹ نے عوامی غصے کو دیکھتے ہوئے 22 اگست کو اپنے حکم پر نظرثانی کی درخواستوں کی جلد سماعت کی اور کہا کہ آوارہ کتوں کو اُن علاقوں میں واپس لے جانا ضروری ہے جہاں سے انہیں پکڑا گیا تھا، بشرطیکہ اُن کی نس بندی، کیڑے مار دوا سے صفائی اور ویکسینیشن کر دی جائے۔ محض 11 دن میں عدالتِ عظمیٰ نے کتوں کے "گلیوں میں جینے کے حق” اور شہریوں کی "سلامتی اور تحفظ” کے درمیان توازن پیدا کر دیا۔

یہ تیزی اس رفتار سے بالکل مختلف ہے جس سے عدالتوں نے دہلی فسادات کیس کے ان نو ملزمان کی ضمانت درخواستوں پر کارروائی کی۔ ان پانچ برسوں میں ان کی درخواستیں مختلف عدالتوں میں ایک بنچ سے دوسرے بنچ کو بھیجی جاتی رہیں، ججوں نے سماعت سے خود کو الگ کر لیا، بعض ججوں نے مکمل سماعت کے باوجود کئی ماہ تک فیصلہ محفوظ رکھا اور پھر تبادلے ہو گئے، نتیجہ یہ کہ پوری کارروائی بار بار نئے سرے سے شروع ہوئی۔

یہ نو افراد اُن 18 میں شامل ہیں جن پر غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کا قانون (UAPA) کے تحت مقدمہ درج ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اینٹی-سی اے اے احتجاج منظم کیا جو ریاست کے مطابق دہلی میں فروری 2020 کے فسادات کو بھڑکانے کی "سازش” تھی۔ ان فسادات میں 54 افراد مارے گئے تھے۔ کیا یہ اموات عدالتوں کے لیے رکاوٹ بن گئیں کہ وہ ضمانت دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوئیں؟ کیا ضمانت دینے سے عوامی جذبات مجروح ہو سکتے تھے؟

کتوں کی قسمت ان نو کارکنوں سے کہیں بہتر نکلی۔ سپریم کورٹ میں سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے بتایا کہ 2024 میں پورے ملک میں 37.17 لاکھ افراد کتے کے کاٹنے کا شکار ہوئے، اور کئی واقعات میں لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ اس کے باوجود جب آوارہ کتوں کو مستقل ہٹانے کا حکم آیا تو عوامی شور اٹھا، جو سپریم کورٹ کی طرف سے حکم واپس لینے پر ختم ہوا — یہ فیصلہ "ہمدردانہ رویے” کی بنیاد پر کیا گیا۔

کاش عدالتیں ان نو افراد کے لیے بھی یہی ہمدردی دکھاتیں جو ابھی تک مقدمہ شروع ہونے کے منتظر ہیں۔ 800 سے 900 گواہوں کے بیانات قلم بند ہونے باقی ہیں، اس مقدمے کے فیصلے میں برسوں لگیں گے۔ کیا عدالتوں کو یہ توازن پیدا نہیں کرنا چاہیے کہ جیسے کتوں کے "جینے کے حق” اور عوامی تحفظ کے بیچ کیا گیا، ویسے ہی ملزمان کے حقِ آزادی اور ریاستی سلامتی کے بیچ بھی کیا جائے؟

سپریم کورٹ نے اپنے کتے والے فیصلے میں کہا کہ صرف ریبیز زدہ کتوں کو الگ کیا جائے۔ اسی طرح ضمانت کے باب میں بھی اصول یہی ہے کہ "جیل نہیں، ضمانت” بنیادی رہنما اصول ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ UAPA کے تحت بھی ضمانت صرف اسی وقت روکی جانی چاہیے جب عدالت کو لگے کہ مقدمہ بادی النظر میں درست ہے۔ سپریم کورٹ نے "وٹالی کیس” میں واضح کیا تھا کہ بادی النظر کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت ریاست کے شواہد کا مکمل تجزیہ کرے، بلکہ صرف یہ دیکھے کہ کیا یہ کہانی پہلی نظر میں ناقابلِ یقین تو نہیں۔

اس فیصلے نے انسانوں اور کتوں کو ایک ہی پیمانے پر لا کھڑا کیا، کیونکہ جیسے ریبیز کا کوئی حتمی ٹیسٹ نہیں، ویسے ہی مقدمات میں بھی صرف پہلی نظر میں فیصلہ دینا پڑتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کتوں کو جان بوجھ کر "ریبیز زدہ” قرار نہیں دیا جاتا، مگر مسلمانوں کے خلاف ریاستی سازشیں عام ہیں۔ اس کی تازہ مثال بمبئی ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے جس میں 2006 ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں سزا پانے والے 11 مسلمانوں کو رہا کیا گیا، یہ قرار دے کر کہ ان سے "انسانیت سوز اذیت” دے کر اعترافِ جرم لیا گیا اور گواہیاں ناقابلِ اعتبار تھیں۔ یہ افراد 19 سال جیل میں رہنے کے بعد بے گناہ ثابت ہوئے۔

ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ عدالتیں کم از کم اتنا ضرور دیکھیں کہ ریاست کے شواہد کا وزن ہے بھی یا نہیں۔ یہی وہ راستہ تھا جو سپریم کورٹ کے جج انیردھ بوس اور سدھنسھو دھولیا نے 2023 میں اختیار کیا جب انہوں نے بھیما کوریگاؤں کیس میں ورنن گونزالفز اور ارون فریرا کو ضمانت دی۔

لیکن دہلی ہائی کورٹ نے 2020 دہلی فسادات کیس میں شواہد کا ایسا کوئی سطحی تجزیہ نہیں کیا۔ اب جب کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے جا رہا ہے، امید کی جا سکتی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ وہی اصول اپنائے گی جو اس نے کتوں کے لیے اپنائے تھے — یعنی ہمدردی اور حقوق کے مابین توازن۔ کیونکہ ان نو مسلم کارکنوں کا احتجاج پاگل پن نہیں بلکہ ہوش مندی کی علامت تھا۔

نوٹ: یہ تحریر ایک انگریزی کالم کا اردو ترجمہ ہے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

گجرات: گھر خریدنا جرم بن گیا؟ہندوتوا دباؤ اور پولیس کی خاموشی ، 15 سالہ ثانیہ کی خودکشی

وکلاء ہرحال میں انصاف کو یقینی بنائیں: سلمان خورشید