حماس نے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت سات اسرائیلی یرغمالیوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کردیا ہے، جو اب اسرائیلی حدود میں پہنچ رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے عوض اسرائیلی حکومت دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے جا رہی ہے، جن میں بچوں، خواتین، عمر قید کاٹنے والے اور کئی دیگر شامل ہیں۔ فلسطینی حلقوں کا موقف ہے کہ یہ معاہدہ ان کے لئے سنگین انسانی المیے کے دوران ایک بڑی کامیابی ہے اور فلسطینی مزاحمتی موقف کو عالمی سطح پر تسلیم کرایا گیا ہے۔ تاہم فلسطینیوں میں ان اسیران کی جلاوطنی پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں کیونکہ اہل خانہ کے مطابق متعدد فلسطینی قیدی مغربی کنارے میں رہنے والے تھے جنہیں اب وہاں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی اور انہیں یا تو غزہ یا بیرون ملک منتقل کیا جائے گا.
فلسطینی مؤقف اور جذبات
فلسطینی حلقے اس رہائی کو صرف اپنی مزاحمت کی کامیابی قرار نہیں دیتے بلکہ اسے اپنے اسیران کی آزادی کی طرف ایک اہم قدم سمجھتے ہیں، اگرچہ قیدیوں کو اپنی سرزمین چھوڑنا پڑ رہا ہے.
اہل خانہ اور حقوق انسانی کے ادارے جلاوطنی کو ظلم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں کہ اسرائیل اس حل کے ذریعے خاندانوں کو جدا کر رہا ہے.
فلسطینی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ اس قیدیوں کے تبادلے میں ان کے حق خود ارادیت اور اپنی سرزمین پر زندہ رہنے کے حق کی روشنی میں کارروائی ہونی چاہیے نہ کہ جلاوطنی اور جبری بیدخلی کے تحت.
ریڈ کراس اور دیگر امدادی ادارے اس عمل کی نگرانی کر رہے ہیں لیکن فلسطینی ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکام پر اعتبار کم ہو رہا ہے کہ وہ باقی فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ان کے مقام کے متعلق شفاف عمل کو یقینی بنائیں گے.
فلسطینی سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ مکمل آزادی کی جدوجہد کا صرف ایک حصہ ہے اور اسرائیلی قیدیوں کے بدلے اپنے اسیران کی رہائی کا عمل دنیا کو فلسطینی کاز کی حمایت پر آمادہ کرنے کا ذریعہ بھی ہے.
یہ پیش رفت فلسطینی عوام کے لئے ایک سنگین یاد دہانی بھی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہر معاہدے میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزیاں سامنے آتی رہتی ہیں، جس میں جلاوطنی ہو یا قیدیوں پر تشدد، فلسطینی عوام اپنا کیس عالمی برادری کے سامنے بھرپور طریقے سے پیش کرتے رہیں گے



