اپوروانند
پروفیسر علی خان محمود آباد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا مگر ان کی زبان بند کر دی گئی ہے۔ عبوری ضمانت ایک بڑی راحت ضرور ہے، وہ سونی پت جیل سے باہر آ گئے ہیں، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہ سکتے ہیں لیکن عدالت نے انہیں اس موضوع پر لب کشائی سے روک دیا ہے، جس پر انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لکھی تھی اور جس کی بنیاد پر ان پر بغاوت سمیت کئی سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا ہے اور ہریانہ کے ڈی جی پی کی سربراہی میں ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے، جسے ان کی سوشل میڈیا پوسٹ کی زبان اور نیت کو ’ڈی کوڈ‘ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پروفیسر کو تحقیقات میں ’تعاون‘ کرنا ہوگا۔
جسٹس سوریہ کانت نے عدالت میں جو تبصرے کیے، وہ کئی قانونی ماہرین کے نزدیک باعثِ تشویش ہیں۔ جیسا کہ ایڈووکیٹ کپل سبل نے عدالت میں علی خان کی فیس بک پوسٹ کا من و عن حوالہ دیا لیکن جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ پروفیسر کو ایسے حساس وقت میں احتیاط برتنی چاہیے تھی۔ وہ اس دلیل سے متفق نہ ہوئے کہ علی خان اپنی اظہار رائے آزادی کی کا استعمال کر رہے تھے۔
جسٹس سوریہ کانت نے مزید کہا کہ ہم 75 برس سے صرف حقوق بانٹ رہے ہیں لیکن فرائض کا کوئی ذکر نہیں؛ کہ علی خان کی باتیں خطرے کی گھنٹی ہیں؛ کہ ان کے الفاظ کے ’ذومعنی‘ ہیں؛ کہ انہوں نے کچھ کہا مگر مطلب کچھ اور تھا۔ پھر بغیر کسی اشارے یا پس منظر کے، انہوں نے اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ کو سڑک پر نہ آنے اور کسی قسم کے احتجاج سے باز رہنے کی تنبیہ دے دی، ورنہ انہیں عدالت کے غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جج کے ان بیانات کا اثر اظہارِ رائے کی آزادی پر پڑے گا، جو پہلے ہی ہندوستان میں شدید دباؤ کا شکار ہے۔ پولیس اور ماتحت عدالتیں ان بیانات کو رہنمائی سمجھ کر کسی بھی حکومتی تنقید پر مزید سختی سے پیش آ سکتی ہیں۔
بہرکیف، سپریم کورٹ کا حکم علی خان کے لیے وقتی ریلیف ضرور لایا ہے۔ سونی پت کی عدالت نے پہلے انہیں پولیس حراست میں بھیجا، پھر عدالتی حراست میں۔ ان کا لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز ضبط کر لی گئی ہیں۔ ان کی آزمائش کا آغاز 18 مئی کی صبح ہوا جب ہریانہ پولیس نے انہیں دہلی میں ان کے گھر سے گرفتار کیا۔
انہیں بغیر ٹرانزٹ ریمانڈ کے سونی پت لے جایا گیا، پھر دہلی لایا گیا، پھر واپس لایا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری پولیس کسی شہری کو کیسے ستا سکتی ہے، باوجود اس کے کہ مختلف عدالتیں گرفتاری کے دوران واضح قانونی عمل پر زور دیتی ہیں۔
سونی پت پولیس نے انہیں صبح 7 بجے دہلی سے اٹھایا، مگر سونی پت کی عدالت کا حکم شام 8 بجے آیا۔ گرفتاری سے ایک دن قبل شام 8 بجے ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جو ایک بی جے پی عہدیدار کی شکایت پر کی گئی۔
غورطلب ہے کہ ایف آئی آر شام 8 بجے درج ہوئی اور اگلی صبح 7 بجے پولیس دہلی میں ان کے دروازے پر پہنچ گئی۔ آپ نے کب دیکھا کہ پولیس کسی اور جرم میں اتنی تیزی سے حرکت میں آئی ہو؟ کسی بھی زیادتی کی شکار خاتون سے پوچھیں کہ ایف آئی آر درج کرانا کتنا مشکل ہے۔
18 مئی اتوار تھا اور اس روز گرفتاری کا مطلب یہ تھا کہ فوری عدالت سے رجوع ممکن نہ تھا اور علی خان کو کم از کم ایک دن تو قید میں گزارنا ہی پڑتا۔ یہی طریقہ ہے جس سے پولیس ’خوش‘ ہوتی ہے کہ اس نے کسی کو اس کی آزادی سے محروم کر دیا۔
پولیس چاہتی تو انہیں سمن بھیج کر تفتیش کے لیے بلا سکتی تھی، مگر گرفتاری کو ترجیح دی گئی۔ بغیر ٹرانزٹ ریمانڈ کے دہلی سے ہریانہ لے جانا، ایک طرح سے اغوا ہے اور دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں غیر قانونی عمل ہے۔
ہم سب ہندوستانی پولیس کی من مانی حرکتوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ پروفیسر خان کے ساتھ جو ہوا، اس سے بہتر کی امید شاید عبث تھی۔ پولیس کیوں بھولتی کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’آپریشن سندور‘ سے متعلق علی خان کی باتوں سے بی جے پی لیڈر ’شدید دکھی‘ ہوئے۔ اس بنیاد پر خان پر مذہبی منافرت پھیلانے، قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے اور ملک سے غداری جیسے الزامات عائد کیے گئے۔ یقینی طور پر خان اتنے سنگین جرائم کے ارتکاب کے بعد آزاد تو نہیں گھوم سکتے تھے!
تو علی خان نے اپنے فیس بک پوسٹ میں آخر کیا کہا تھا؟ انہوں نے لکھا، ’’کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف کرتے دیکھ کر خوشی ہوئی، لیکن کیا یہی دائیں بازو کے تجزیہ کار ماب لنچنگ، بلڈوزر سے مکان گرائے جانے اور نفرت انگیز بیانات سے متاثر افراد کے لیے بھی مساوی حقوق کا مطالبہ کریں گے؟ دو خواتین فوجی اہلکاروں کا بریف کرنا اہم ہے لیکن یہی مظاہرہ حقیقت میں بھی کیا جانا چاہئے، وگرنہ یہ محض منافقت ہے۔‘‘
اس پوسٹ میں مذہبی منافرت یا دو گروہوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے والی بات کون سی ہے؟
ایک اور اقتباس، ’’میرے لیے یہ پریس کانفرنس ایک ایسے ہندوستان کی جھلک ہے جو اس نظریے کو چیلنج کرتا ہے جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ حکومت کچھ اور دکھانے کی کوشش کر رہی ہے، مگر عام مسلمانوں کو جو حالات درپیش ہیں، وہ مختلف ہیں لیکن پریس کانفرنس سے امید بھی بندھتی ہے کہ متحدہ، متنوع ہندوستان کا نظریہ مرا نہیں۔‘‘
یہ بیان کون سی قومی خودمختاری کو نقصان پہنچاتا ہے؟ یہ کہاں سے ملک سے غداری بنتا ہے؟
اسی طرح کی باتیں کئی لوگ کہہ چکے ہیں، مگر صرف علی خان کو مجرم مانا گیا، کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ آج ہندوستان میں مسلمان ہونا گویا ایک جرم بن چکا ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں، تو آپ کو اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں۔ عمر خالد، شرجیل امام، خالد سیفی، عشرت جہاں، گلفشاں فاطمہ، میران حیدر، صدیق کپن… فہرست طویل ہے۔
پروفیسر علی خان کو نشانہ بنانے کی ایک اور وجہ ہے اور اسے بھی صاف طور پر کہا جانا چاہیے کہ وہ ایک اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں۔ انہوں نے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کی ہے، وہ کئی زبانیں بولتے ہیں، ایک باوقار یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ ہیں اور نوابوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کیوں لیکن ڈاکٹر خان کی گرفتاری نے مجھے 2002 کی یاد دلا دی۔ ایک اور مسلمان دانشور اور سابق رکنِ پارلیمان احسان جعفری بے اختیار یاد آ گئے، جو احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں رہتے تھے۔ مسلمانوں نے ان کے قد و مرتبے پر اعتماد کرتے ہوئے یہ سوچا کہ وہ انہیں بچا لیں گے، اس لیے ان کے گھر جمع ہو گئے لیکن ہندو ہجوم نے احسان جعفری کو بھی قتل کر دیا۔
عینی شاہدین نے بعد میں بتایا کہ جب حالات بے قابو ہو گئے تو جعفری نے اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ کو فون کیا، تو جواب ملا، ’’تم ابھی تک زندہ کیسے ہو؟‘‘
کسی جمہوریت کے زندہ ہونے کی علامت ہے کہ لوگ بے خوف ہو کر اپنی بات کہہ سکیں۔ پروفیسر علی خان کی گرفتاری کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی جمہوری آواز کو خاموش کر دیا گیا ہے۔
(مضمون نگار اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں ہندی پڑھاتے ہیں)