نئی دہلی: آپریشن سندور پر تبصرہ معاملے میں سپریم کورٹ نے بدھ کو اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی ضمانت میں توسیع کر دی۔ اسی کے ساتھ بنچ نے کہا کہ ان کے بولنے اور اظہار رائے کے حق پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن وہ اپنے خلاف درج مقدمات کے سلسلے میں آن لائن کچھ بھی پوسٹ نہیں کر سکتے۔
جسٹس سوریہ کانت اور دیپانکر دتا کی بنچ نے ان کی ضمانت کی شرائط میں بدلاؤ کرنے سے انکار کر دیا۔ واضح رہے کہ 21 مئی کو انہیں مشروط عبوری ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ان کی آن لائن پوسٹ پر درج دونوں ایف آئی آرز میں سے کسی سے متعلق کوئی بھی آن لائن تبصرہ، مضمون نہیں لکھیں گے یا کوئی زبانی تقریر نہیں کریں گے جو کہ جانچ کا موضوع ہے۔ حالانکہ آج سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ یہ پابندی صرف مذکورہ کیس سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر ان کے اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
بنچ نے کہا کہ وہ پروفیسر کو دی گئی عبوری ضمانت میں توسیع کر رہی ہے، اسی کے ساتھ ایس آئی ٹی کو ہدایت دی کہ وہ اگلی سماعت کی تاریخ کو جانچ رپورٹ پیش کرے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ تفتیش کا موضوع پروفیسر کے خلاف درج دو ایف آئی آرز ہیں۔ عدالت نے ہریانہ پولیس سے کہا کہ وہ جانچ میں "بائیں اور دائیں” نہ جائیں۔ وہیں پروفیسر کو ہدایت دی گئی کہ وہ ان "آلات” کو جمع کریں جن کی جانچ پولیس کرنا چاہتی ہو۔
بنچ نے ہریانہ پولیس کو ایک اور ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ پروفیسر کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق این ایچ آر سی کے نوٹس پر اپنے جواب سے آگاہ کرے۔ 21 مئی کو، قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) نے کہا کہ اس نے گرفتاری کے سلسلے میں ایک میڈیا رپورٹ کا "از خود نوٹس” لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پروفیسر علی خان کو سپریم کورٹ سے ضمانت کے بعد ایک اور راحت، قومی انسانی حقوق کمیشن نے گرفتاری کا از خود نوٹس لیا
قومی انسانی حقوق کمیشن جاری کردہ نوٹس میں لکھا کہ "وہ رپورٹ جس میں وہ الزامات درج ہیں جن کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا، وہ پہلی نظر میں یہ انکشاف کرتی ہے کہ مذکورہ پروفیسر کے انسانی حقوق اور آزادی کی خلاف ورزی کی گئی ہے”۔
21 مئی کو، سپریم کورٹ نے پروفیسر کی عبوری ضمانت منظور کی تھی، جنہیں سوشل میڈیا پر آپریشن سندور سے متعلق پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے ان کے خلاف جاری جانچ کو روکنے سے انکار کر دیا۔ عدالتی بنچ نے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کی جانچ کے لیے تین رکنی ایس آئی ٹی کے تشکیل کی ہدایت دی تھی۔
ہریانہ پولیس نے اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کو 18 مئی کو اس کے خلاف دو ایف آئی آر درج ہونے کے بعد گرفتار کیا۔ ان ایف آئی آرز میں آپریشن سند پر لکھے گئے سوشل میڈیا پوسٹ کی بنیاد پر الزام عائد کیا گیا کہ اس سے ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرہ ہے۔
دو ایف آئی آرز میں سے ایک ہریانہ اسٹیٹ کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ کی شکایت پر جب کہ دوسری گاؤں کے سرپنچ کی شکایت پر سونی پت ضلع میں رائے پولیس نے درج کی تھی۔