وقف کے بعد اب کیا یکساں سول کوڈ کی باری ، کرناٹک ہائی کورٹ کا مسلم پرسنل لاپر تبصرہ ،

بنگلورو: کرناٹک ہائی کورٹ نے یکساں سول کوڈ (Uniform Civil Code – UCC) کو لاگو کرنے پر زور دیا ہے۔ عدالت نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت قانون بنائیں۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس ہانچا ٹی سنجیو کمار نے یہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا قانون تمام برادریوں میں مساوات اور صنفی انصاف کو یقینی بنائے گا۔

جسٹس ہانچا ٹی سنجیو کمار نے کیا کہا؟

جسٹس ہانچا ٹی سنجیو کمار ایک مسلم خاتون کی موت کے بعد ان کی جائیداد کی تقسیم سے متعلق مقدمے کی سماعت کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے دعوی کیا کہ یو سی سی پر قانون بنانے سے آئین کے دیباچے میں درج اہداف اور توقعات پوری ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بھارت صحیح معنوں میں ایک سیکولر جمہوری ملک بنے گا۔ عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایسا قانون صنفی انصاف کو فروغ دے گا، سب کے لیے مساوی حقوق اور مواقع کو یقینی بنائے گا اور ہر فرد کے وقار کا تحفظ کرے گا۔

جسٹس سنجیو کمار نے گوا اور اتراکھنڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان ریاستوں نے یو سی سی کو لاگو کرنے کی سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے ہندو قانون کے تحت بھائیوں اور بہنوں کے مساوی حقوق کی بھی بات کی۔ جج نے رجسٹرار جنرل کو مرکز اور کرناٹک حکومت کے پرنسپل سکریٹری کو فیصلے کی ایک کاپی بھیجنے کی ہدایت دی۔

مقدمہ کیا تھا؟

یہ کیس شہناز بیگم کی جائیداد سے متعلق تھا۔ شہناز بیگم کی موت کے بعد ان کے شوہر، دو بھائیوں اور ایک بہن کے درمیان جائیداد کی تقسیم پر تنازع چل رہا تھا۔ شہناز ایک سرکاری سکول میں ٹیچر تھیں اور چھ جنوری 2014 کو انتقال کر گئیں۔ عدالت نے شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ دیا کہ شہناز کے 89 سالہ شوہر کو ان کے تمام اثاثوں میں 75 فیصد حصہ ملے گا، ان کے دونوں بھائیوں کو 10 فیصد اور بہن کو 5 فیصد ملے گا۔

جج کا مسلم پرسنل لا پر سخت تبصرہ

ہائی کورٹ کے جسٹس سنجیو کمار نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مسلم پرسنل لا پر سخت تبصرہ کیا۔ انہوں نے ہندو اور مسلم پرسنل لاز میں فرق واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہندو قانون کے تحت بیٹیوں اور بیٹوں کو وراثت میں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ بیویوں کو بھی شوہروں کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق ہے۔ لیکن، مسلم قانون میں ایسی کوئی مساوات نہیں ہے۔

جج نے کہا کہ اس معاملے میں مسلم قانون کے تحت بھائیوں کو جائیداد میں حصہ ملتا ہے لیکن، بہن کو حصہ صرف ‘بقیہ’ کے طور پر ملتا ہے۔ یعنی انہیں بھائیوں سے بہت کم حصہ ملتا ہے۔ یہ امتیاز ہندو قانون میں موجود نہیں ہے، جہاں بہن بھائیوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔

انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ مساوی حقوق اس وقت دستیاب ہوں گے جب یو سی سی کا نفاذ ہو گا۔ اس سے مذہب یا ذات کے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے مساوی قانون ہوگا۔ اس وقت ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے پرسنل لاز پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ پرسنل لاز شادی، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے سول معاملات سے متعلق ہیں۔ یو سی سی کے نفاذ کے بعد سب کے لیے یکساں قانون ہوگا۔

خیال رہے کہ شرعی قانون کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کو دونوں سسرال اور میکے دونوں طرف حصہ ملتا ہے، اسی کے ساتھ ہمیشہ کوئی نہ کوئی مرد ان کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے، جج موصوف نے اپنے تبصرے میں اس بات کا ذکر نہیں کیا۔

وقف ترمیمی بل کو صدرجمہوریہ کی منظوری ،

جھارکھنڈ میں نافذ نہیں ہوگا وقف ترمیمی قانون ، وزیرصحت کا اعلان