نئی دہلی: سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے جمعرات کو اپنا عبوری فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج میسیح پر مشتمل بنچ نے تین اہم نکات پر فریقین کی تفصیلی بحث سننے کے بعد یہ فیصلہ محفوظ رکھا۔
یہ درخواستیں وقف قانون میں 2025 کی گئی ترامیم کے خلاف دائر کی گئی تھیں، جن پر معروف وکلاء کپل سبل، راجیو دھون اور ابھیشیک منو سنگھوی نے درخواست گزاروں کی نمائندگی کی، جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے۔ تین روز تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران دونوں فریقوں نے اپنے دلائل پیش کیے۔
مرکز نے ترمیمی قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وقف بذات خود ایک ’سیکولر تصور‘ ہے اور چونکہ یہ قانون آئینی اصولوں کے مطابق ہے، اس لیے اس پر روک نہیں لگائی جا سکتی۔ وزارت اقلیتی امور نے 25 اپریل کو عدالت میں 1332 صفحات پر مشتمل ابتدائی حلف نامہ داخل کیا تھا، جس میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ اس قانون پر روک لگانے کی مخالفت کی گئی۔
دوسری جانب درخواست گزاروں نے اس قانون کو عدالتی اصولوں اور آئینی روایات سے ’مکمل انحراف‘ قرار دیا اور کہا کہ حکومت غیر عدالتی طریقے سے وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ کپل سبل نے الزام لگایا کہ یہ قانون دراصل وقف جائیدادوں پر منظم طریقے سے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
درخواست گزاروں نے تین اہم نکات پر عبوری حکم جاری کرنے کی گزارش کی، جن میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ کیا عدالت کی طرف سے کسی جائیداد کو وقف، وقف بائی یوزر یا وقف بائی ڈیڈ قرار دیے جانے کے بعد حکومت اسے غیرمعلن قرار دے سکتی ہے؟ دوسرا نکتہ ریاستی وقف بورڈ اور مرکزی وقف کونسل کی تشکیل سے متعلق ہے، جس میں درخواست گزاروں کا مطالبہ ہے کہ غیر مسلم ارکان کو ان اداروں میں شامل نہ کیا جائے، سوائے ان کے جو عہدے کے لحاظ سے شامل ہوں۔
تیسرا نکتہ اس شق سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ضلع کلکٹر یہ جاننے کے لیے تحقیقات کرے کہ کوئی جائیداد سرکاری زمین ہے یا نہیں، تو ایسی صورت میں اسے وقف تصور نہیں کیا جائے گا۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ شق وقف املاک کے تحفظ کے لیے خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو پچھلے مہینے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد نوٹیفائی کیا گیا تھا۔ یہ بل لوک سبھا میں 288 کے مقابلے 232 ووٹوں سے اور راجیہ سبھا میں 128 کے مقابلے 95 ووٹوں سے منظور ہوا تھا۔