ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی۔بجنور
وقف ایک دینی اور شرعی اصطلاح ہے۔وقف کا مطلب ہے اپنی منقولہ یا غیر منقولہ جائدادواموال میں سے کسی حصہ سے اللہ کی رضا کے لیے،کسی دینی و رفاہی کام کے لیے اپنی ملکیت سے دست بردار ہوجاناتاکہ وہ اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔یعنی مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔عربی زبان میں وَقَفَ یَقِفُ وَقْفاً کے معنی ہیں ”رُکنا“۔چونکہ وقف میں انسان اپنی ملکیت سے ہاتھ روک لیتا ہے اس لیے اسے وقف کہتے ہیں۔اس کی جمع اوقاف ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:۔”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے۔ ایک صدقہ جاریہ، دوسرا ایسا علم، جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور نیک و صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرے“(ترمذی)۔واقف کو اپنے وقف سے دو بڑے فائدے ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ اللہ اس سے خوش ہوتا ہے۔دوسرے یہ کہ لوگ اس وقف سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اسلام میں وقف کوشروع ہی سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت ساری چیزیں وقف کیں۔ آپ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مسجد قبا تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کی زمین بھی وقف تھی۔اسی طریقے سے یہودیوں کی بعض زمینیں اور باغات آپ ؐ نے خرید کر وقف کئے۔مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا۔وہ یہودی کی ملکیت تھا۔وہ پانی کی قیمت بھی وصول کرتا اور جسے چاہتا پانی دیتا اور جسے چاہتا پانی بھرنے سے روک دیتا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے خریدا اور اسے وقف کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے دور میں بہت ساری چیزیں وقف کیں۔حضرت عمر ؓ نے اوقاف کا اندراج بھی کیا۔ یوں سمجھئے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے باقاعدہ ایک وقف بورڈ قائم کیا۔ یہ آج کل مختلف ممالک میں وقف بورڈ ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں قائم بورڈ کی نقل ہیں یا اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ خلفائے راشدین کے بعد عباسی اور اموی دور میں بھی وقف کا سلسلہ جاری رہا اور لوگوں نے مساجد اور قبرستان اور ہاسپٹل کے لیے اپنی زمینیں وقف کیں۔بعض اشخاص نے تعمیرات کر کے پوری عمارت کو وقف کیا۔
ہندستان میں یوں تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی اوقاف کا سلسلہ شروع ہوا مگر فیروز شاہ تغلق نے اسے خوب رواج دیا۔اس نے خود ایک ہاسپٹل قائم کیا۔جہاں مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔دوائیں بھی مفت ملتیں اور کھانا بھی۔دہلی میں مدرسہ فیروزشاہی بھی اسی نے قائم کیا جو اپنے وقت کا ایک عظیم علمی ادارہ تھا۔ فیروز شاہ تغلق کے دور حکومت (1351 سے 1388) میں وقف املاک کو منظم کیا گیا۔شیر شاہ سوری (1529 ء تا 1540 ء) کے دور میں اوقاف کا شعبہ نہ صرف مضبوط ہوا بلکہ اس سے استفادہ کندگان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔شیر شاہ سوری کا دور فلاحی اور رفاہی کاموں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔اس نے مساجد کے لیے زمینیں فراہم کیں۔شفاخانے قائم کیے اور تقریباً 1700 مسافر خانے قائم کیے۔ان مسافر خانوں میں مسافروں کو قیام کے ساتھ کھانے پینے کی سہولیات بھی حاصل تھیں۔ان کی سواریوں کے لیے چارہ کا انتظام بھی تھا۔یہ مسافر خانے ملک میں موجود اوقاف کی آمدنی سے چلائے جاتے تھے۔ جلال الدین اکبر کے زمانے میں بھی اوقاف میں خوب اضافہ ہوا۔ ان تاریخی شواہد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں اوقاف کا نظام بہت قدیم ہے۔
مسلم سلطنت کے زوال کے بعدہندستان میں وقف قانون کی تاریخ 1810 سے شروع ہوتی ہے۔ 1810 میں، کلکتہ کے فورٹ ولیم کے تحت علاقوں کے لئے ایک قانون منظور کیا گیا تھا، اس کے بعد 1817 میں فورٹ سینٹ جارج، مدراس کے علاقوں کے لئے اسی طرح کا قانون منظور کیا گیا تھا۔1818 میں وقف املاک کی نگرانی بورڈ آف ریونیو اور بورڈ آف کمشنرز کو سونپی گئی۔ اس کے بعد 1863 میں تمام سابقہ قوانین کو منسوخ کر دیا گیا اور مذہبی اوقاف کو متولیوں کے دائرہ اختیار میں دے دیا گیا۔ 1890 کے چیریٹیبل انڈومنٹ ایکٹ نے خیراتی وقف جائیدادوں کے تحفظ اور ان کے رکھ کھاؤ سے بے توجہی برتی اور اوقاف ویران ہونے لگے۔انگریزوں نے سازش کے تحت وقف املاک کو خورد برد کیا۔ان کو فروخت کردیا اور ناجائز قبضے کرائے۔ 1873 میں بمبئی ہائی کورٹ نے ’وقف الاولاد‘ کے خلاف فیصلہ جاری کیا۔انگریزوں کی سازشی ذہنیت کے ظاہر ہونے کے بعد وقف جائدادوں کی حفاظت کی جانب مسلم رہنماؤں کی توجہ ہوئی اور احتجاج و جد جہد کی ایک طویل داستان رقم ہوئی۔جس کی تفصیلات تاریخی کتابوں میں درج ہیں۔بالآخر 7 مارچ 1913 کو ’مسلم وقف ویلیڈنگ ایکٹ 1913‘ نافذ کیا گیا۔
آزادی کے بعد1954ء میں نیا وقف ایکٹ منظور ہوا۔ کافی ترمیمات کے بعد سن1995 میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے سنٹرل وقف ایکٹ1995منظور کیا گیا۔2/ اپریل2025کو حکومت ہند نے وقف ترمیم کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا اور اسے دونوں ایوانوں سے بآسانی پاس بھی کرالیا۔صدر جمہوریہ نے بھی دستخط کردیے۔9/ اپریل گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا اور اس طرح مسلمانوں اور انصاف پسند وں کے احتجاج کے باوجود نیا قانون نافذ کردیا گیا۔
نئے قانون کو مختلف ملی تنظمیوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا ہے۔عدالت عالیہ نے درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور بھی کرلیا ہے۔حکومت نے بھی عدالت عظمی سے درخواست کی ہے کہ اسے سنے بغیر کوئی فیصلہ نہ سنایا جائے۔ہم جانتے ہیں کہ جب کوئی مقدمہ عدالت عالیہ میں چلاجاتا ہے تو عدلیہ کے اصول و ضوابط کے مطابق آگے بڑھتا ہے۔عدلیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کے مقدمات دہائیوں تک چلتے رہتے ہیں۔امید ہے کہ مذکورہ مقدمہ کی سماعت جلد ہوگی اور فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئے گا۔اس امید کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ قانون دستور ہند کی کئی دفعات سے متصادم ہے۔
آرٹیکل 15کے تحت ریاست کسی بھی شہری کے ساتھ صرف مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرسکتی۔مگر وقف کا نیا قانون صرف مسلمانوں کے اوقاف پر نافذ ہوگا۔اس طرح یہ قانون مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے والا ہے۔ملک میں بیشترمذہبی اکائیوں کے پاس اوقاف کی جائدادیں ہیں،جن کا نظم و انصرام وہ خود آزادانہ طور پر کرتی ہیں۔ان کے معاملات میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہے،لیکن نئے وقف قانون کے تحت حکومت کو مسلم وقف بورڈوں کے فیصلوں میں دخل دینے کا حق ہوگا۔
آئین ہند کے آرٹیکل 25 میں مائنارٹیز کو اپنے مذہب اور عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی کا تیقن دیا جاتا ہے۔لیکن وقف کا نیا قانون براہ راست مسلمانوں کے مذہبی امور میں سرکاری مداخلت کو جائز قرار دیتا ہے۔ اوقاف کا تعلق مسلمانوں کے دین و ایمان سے ہے،اس کے اجرو ثواب کا تعلق دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت سے بھی ہے۔نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص جو اپنی کوئی جائداد وقف کرنا چاہتا ہے تو اس کا گزشتہ پانچ سال سے مسلمان ہونا ضروری ہے۔یہ شرط نہ صرف آئین سے متصادم ہے بلکہ عقل و شعور سے بھی اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ایک شخص جس نے آج اسلام قبول کیا،وہ آج سے ہی مسلمان ہے اور اس پر تمام فرائض و واجبات آج سے ہی نافذ العمل ہوں گے۔اس کو یہ کہنا کہ تم فلاں عبادت ابھی نہیں بلکہ پانچ سال بعد ادا کروگے ایک غیر معقول بات ہے۔ایک طرف تو حکومت کسی دلت کے اسلام قبول کرتے ہی اس کو دی جانے والی جملہ آئینی سہولیات سے اسے محروم کردیتی ہے،اس سے رزرویشن کا حق چھین لیا جاتا ہے۔دوسری طرف اس پر یہ شرط عائد کرتی ہے کہ اپنی جائداد پانچ سال بعد وقف کرے گا۔
آئین کا آرٹیکل 29 شہریوں کو اپنی زبان، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کا حق فراہم کرتا ہے۔اوقاف کا تعلق ہماری ثقافت سے بھی ہے۔ملک میں موجود تاریخی مساجد،قلعے،خانقاہیں،درگاہیں،ہماری زریں تاریخ اورہماری روشن تہذیب کی علامت ہیں۔نئے قانون کے تحت ان پر کسی بھی قسم کا سرکاری کنٹرول،ہماری ثقافت پر حملہ ہے۔جو دستور میں دیے گئے حقوق کے خلاف ہے۔
آرٹیکل 30 اقلیتوں کو تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کا انتظام کرنے کا حق فراہم کرتا ہے اور ایسے اداروں کو امداد فراہم کرنے کے معاملات میں ریاست کو کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک سے روک دیا گیا ہے۔اوقاف کے تحت مدارس اور تعلیمی ادارے بھی آتے ہیں۔ملک کے بیشتر مدارس وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں۔مساجد میں بھی تعلیم کا نظم کیا جاتا ہے۔مساجد کی جگہیں خود بخود اللہ کے نام وقف ہوجاتی ہیں۔چاہے وہ آن پیپر رجسٹرڈ ہوں یا نہ ہوں۔اسی لیے انھیں اللہ کا گھر کہا جاتا ہے۔صرف مساجد ہی نہیں بلکہ دیگر عبادت گاہوں کی بھی اصولی حیثیت یہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے ماننے والوں نے خود ہی اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں سے انحراف کرلیا ہو۔نئے قانون میں چونکہ اوقاف کے انتظام و انصرام میں حکومت کو مداخلت کا حق حاصل ہوگیا ہے،خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ،اس لیے وہ مساجد میں قائم مکاتب اور مدارس کے تعلیمی نظام میں مداخلت کرے گی،جیسا کہ اب بھی مختلف عنوانات کے تحت کررہی ہے۔کبھی سروے کے نام پر،کبھی تعلیمی نصاب کے نام پر۔آسام میں سولہ سو سے زائد مدارس کا نظم سرکار نے اپنی مرضی کے مطابق کرلیا ہے۔خبر ہے کہ اتراکھنڈ کے بھی بعض اداروں کو سیل کردیا گیا ہے۔
کسی بھی جمہوری ملک میں شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے،اس کی تبلغ کرنے اور ردو قبول کرنے کا اختیار حاصل رہتا ہے،سرکار اور سرکاری ادارے شہریوں کے مذہبی معاملات سے دور رہتے ہیں۔ان کا کام ملک میں امن و امان قائم کرنا،شہریوں کے مابین یکجہتی کی فضا قائم رکھنا اور آئین کے مطابق عدل و انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔مگر گزشتہ کئی سال سے ہمارے ملک کی جمہوری حکومتیں ایک خاص مذہب کو فروغ دے رہی ہیں اور ایک خاص مذہب کو مٹانے کے درپے ہیں۔ظاہر ہے یہ فضا کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہے۔سرکاروں کے اس رویہ سے ملک میں بدامنی کا راج قائم ہورہا ہے۔آپسی محبت اور باہمی تعاون میں کمی واقع ہورہی ہے۔شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس پرورش پارہا ہے۔نوجوانوں پرناامیدی اور مایوسی کے بادل منڈرارہے ہیں۔اس وقت جب کہ عالمی طاقتوں کے مابین ٹیرف وار جاری ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر کساد بازاری کا اندیشہ ہے۔دنیا کے قابل ذکر حصے میں جنگ بھی چل رہی ہے۔ایسے حالات میں ہماری حکومت ملک کی سب سے بڑی اقلیت جس کی تعداد بیس کروڑ ہے کے دین و مذہب کے خلاف قانون سازی کررہی ہے۔اس کا یہ عمل اس کے اپنے قول سب کا ساتھ،سب کا وشواس اور سب کا وکاس کے بھی خلاف ہے۔
اس موقع پر مسلمانوں کے موقر ادارے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے قانون کی مخالفت کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ ملکی آئین کے تحت ہے۔ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کا ساتھ دیں اور اپنے آپسی اختلافات کو اول تو ختم کرلیں یا کم از کم بھول جائیں۔ہمارا انتشار ہماری کمزوری ہے جس کا فائدہ اغیار اٹھا رہے ہیں۔مجھے پوری امید ہے کہ ملک کے اہل حل و عقد عقل و ہوش سے کام لیں گے،گڑے مردے نہیں اکھاڑیں گے اور قوم و ملت کے رہنما بھی جذبات کے بجائے دلائل و شواہد کی روشنی میں احتجاج کا منصوبہ بنائیں گے۔ان شاء اللہ حالات بدلیں گے۔