وقف قانون مخالف تحریک مفاد پرستوں کے نشانے پر


نواب علی اختر

لوک سبھا انتخابات 2024 میں گرتے پڑتے کسی طرح کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک بار پھر منظر عام پر آنے والی بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت کے دعووں اور وعدوں سے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید موجودہ حکمرانوں نے انتخابات میں عوامی رد عمل سے سبق لیا ہے اور مسلم دشمنی سے توبہ کر کے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔ مگر ماہرینِ سیاست کے تمام اندازوں اور اشاروں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے والے عوامی نمائندوں نے پھر وہی طرزِ عمل اختیار کیا جو ہندوستان کا مہذب سماج کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرتا۔ موجودہ حالات میں ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کی اقلیت اور اکثریت کو ایک دوسرے کو مارنے کاٹنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔

اس ناگفتہ بہ صورتِ حال کے لیے مقتدرہ سے زیادہ وہ لوگ گنہگار ہیں جنہیں سماج نے سر آنکھوں پر بٹھا کر عزت اور شہرت سے نوازا ہے۔ ایسے لوگوں نے اپنے پیروکاروں اور مقلدین کو حیوانیت کے ریگستان میں در در کی ٹھوکریں کھانے اور مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ حد تو یہ ہو گئی ہے کہ آج وہ لوگ جنہیں مسلمانوں کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے ایوانِ اقتدار میں معزز مہمان کا درجہ دیا جاتا تھا، حکومت کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور گمراہ کن بیانیوں اور پروپیگنڈے سے مسلمانوں کو ہی بدنام کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایسے افراد کی لیاقت اور صلاحیت سے ہر کوئی واقف ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کا کوئی اثر ہونے والا نہیں، مگر اس سے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں کو حوصلہ مل رہا ہے۔

تازہ معاملہ وقف قانون میں ترمیم کا ہے، جس کی حکومت اور اس کی ہمنوا پارٹیوں کے علاوہ ہر طرف سے مخالفت ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ملک کا ایک بڑا طبقہ حکومت کی ہٹ دھرمی سے ناراض ہے، مگر چند ضمیر فروش اور اونچی اونچی ٹوپیوں کے شوقین نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسی ایسی تاویلیں پیش کر رہے ہیں گویا ان پر ہی آج وحی نازل ہوئی ہو۔ ایسے لوگوں کو بڑے بڑے ٹی وی چینل بھی دولہا بنا کر اونچی کرسی پر بٹھاتے ہیں اور اسلامی اسکالر کا خطاب دے کر ان سے ہر وہ بات کہلواتے ہیں جو حکومت سننا چاہتی ہے۔ یہ لوگ بھی اتنے ڈھیٹ ہو چکے ہیں کہ حکومت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن اور حدیث تک کا حوالہ دینے سے نہیں گریز کرتے۔

اب تک یہی محسوس کیا گیا ہے کہ 2014 کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کو حاشیے پر پہنچانے کی ایک جارحانہ مہم شروع کی گئی تھی جو اب تک جاری ہے۔ اس مدت میں لو جہاد، شہریت قانون، مسجد، مندر جیسے متعدد بے سر پیر کے معاملے اٹھائے گئے اور اب نیا وقف قانون بنا کر مسلمانوں کی ترقی کی رفتار پر بریک لگانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے امن و اتحاد کا دامن نہیں چھوڑا اور حکومت کے سامنے کاسۂ گدائی پھیلانے کے بجائے پرامن طریقے سے اپنی تعلیم، کاروبار، سماجی سرگرمیوں میں فعال رہے۔ مگر مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ذاتی فائدے کے لیے ’گھر کا بھیدی…‘ کی طرز پر ہر وہ کام کرنے پر آمادہ رہتا ہے، جس کے لیے شاید اس کا اپنا ضمیر بھی اجازت نہیں دیتا ہوگا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے شروع کی گئی تحریک کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا دیکھا گیا ہے جب کسی موضوع پر مسلمانوں کا ہر طبقہ متحد اور متفق نظر آ رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے شرپسند عناصر کی سازشوں پر پانی پھیر دیا ہے، حالانکہ مسلمانوں کے بھیس میں کچھ لوگ سرگرم ہیں جو اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے تحریک کو بدنام کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے۔ تحریک میں شامل ہر شخص کو چاہئے کہ وہ امن و قانون کی صورت حال کو بنائے رکھے اور ہر طرح کے تشدد آمیز واقعات سے اپنی تحریک کو بدنام ہونے سے بچائے، بصورتِ دیگر وقف قانون مخالف ملک گیر تحریک کے اصل مقاصد کے حصول کے بجائے شدید نقصانات میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نیا وقف قانون براہِ راست طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے لایا گیا ہے۔ اس کا اندازہ تجویز سے لے کر قانون بننے تک کے عمل سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وقف ترمیمی بل کو منظور کروایا، اسی تیزی کے ساتھ صدرِ جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمو نے بھی اس بل کو منظوری دیتے ہوئے اسے قانون کی شکل دے دی۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اس مسئلہ پر جو مباحث ہوئے وہ سارے ملک نے دیکھے ہیں۔ کس طرح سے ملک میں سیکولر ذہن رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے ڈٹ کر اس بل کے خلاف اظہارِ خیال کیا اور جم کر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس بل کو مسلم دشمنی قرار دیا تھا۔

اب جبکہ یہ بل قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے اور صدر جمہوریہ نے اسے منظوری دے دی ہے تو کئی افراد اور تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں وقف قانون کے خلاف اب تک تقریباً 16 عرضیاں داخل کی جا چکی ہیں اور تمام عرضیوں پر 16 اپریل کو سماعت ہونے کا امکان ہے۔ جو قانونی جدوجہد ہے وہ ضرور کی جانی چاہئے، تاہم اس لڑائی کو محض علامتی اور اپنے آپ کو ہمدرد کہلانے کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ ایک جامع اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایسی حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے جس میں عدالتوں سے رجوع ہونے والے کسی بھی فریق کے موقف میں دوسرے فریق کے موقف سے کوئی تضاد نہ ہو۔

سبھی جانتے ہیں کہ وقف اللہ کی امانت ہے اور مسلمان اس کے نگہبان ہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ مسلمان اپنا گھر ٹوٹتے تو دیکھ سکتا ہے مگر اللہ کی امانت میں خیانت ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ اس لیے حکمرانوں اور ان کے پروردہ لوگوں کو مسلمانوں کو حاشیے پر پہنچانے کے بجائے عوام کی ترقی اور خوشحالی پر دھیان دینا چاہئے جو ملک کی سالمیت کی ضمانت ہے۔ بصورتِ دیگر فرقہ واریت کا زہر ہر ایک کے لیے سَمِ قاتل ثابت ہوگا۔ وقف قانون کے خلاف بلاشبہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے تاریخی تحریک شروع کی ہے، جس کا ابتدائی فائدہ مسلمانوں میں اتحاد کی شکل میں سامنے آیا ہے، اس کے علاوہ دیگر طبقات کے مہذب افراد بھی حمایت میں آ رہے ہیں اور اسے تحریک کی کامیابی کا اشارہ کہا جا سکتا ہے۔

وقف قانون کو چیلنج کرنےو الی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں 16 اپریل کوہوگی سماعت

AITM بھٹکل میں نیشنل لیول ہیکاتھون "CodeFest” کا آغاز,ملک بھر سے 30 ٹیموں کی شرکت