سراج الدین ندوی
28/ اپریل 2025کوایک واٹس اپ پیغام کے ذریعہ یہ جانکاہ خبرملی کہ مدرسہ مظاہر العلوم کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا سید محمد عاقلؒ صاحب داغ مفارقت دے گئے۔مولانا کا شمار ہندوستان کے ان بزرگوں میں ہوتا تھا جو ہمارے اسلاف کی یادگار نمونہ تھے۔ علم کی گہرائی و گیرائی،تقویٰ و طہارت،صداقت و دیانت،سادگی و عاجزی جیسے مومنانہ اوصاف میں وہ قابل تقلید نمونہ تھے۔
دو سال قبل میرا مظاہر العلوم سہارن پور جانا ہوا،تو ان کے چھوٹے بھائی حضرت مولانامفتی محمد صالح صاحب مد ظلہ العالی جو اس وقت نائب ناظم تھے،ان سے بعد نماز عصر مسجد میں ملاقات ہوئی،موصوف بہت پرتپاک انداز سے ملے،معانقہ کیا،پھر باصرار اپنے گھر لے گئے اور پرتکلف عصرانہ کرایا۔اس موقع پرمولانا محمد ذوالفقار ندوی اور میرے دوست مولانا شوکت علی مظاہری بھی ہمراہ تھے۔تفصیل سے گفتگو کرنے کے بعد ہم لوگ حضرت ناظم صاحب کے پاس گئے،وہ اس وقت بھی طلبہ کو درس دے رہے تھے۔حالانکہ کبر سنی اور ضعف و نقاہت دیکھنے کے قابل تھی،لیکن ان کا انہماک ہم لوگوں کے لیے قابل تقلید اور قابل رشک تھا۔مولانا چالیس سال سے ابوداؤد شریف کا درس دے رہے تھے۔مولانا شوکت علی مظاہری مد ظلہ جو ان کے شاگرد رہ چکے ہیں،انھوں نے بتایا کہ مولانا کا انداز درس بڑا بلیغ اورموثر ہوتا تھا اور مولانا ہم طلبہ سے بڑی شفقت اور محبت کرتے تھے۔مولانا پہلے مدرسہ مظاہر العلوم میں مدرس رہے،پھر صدر مدرس رہے اور اب وہ ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے اپنی خدمات عالیہ انجام دے رہے تھے۔
مولانا موصوف اسلاف کا نمونہ تھے،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ کے داماد اور خلیفہ ہونے کی وجہ سے انھیں عوام و خواص میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔پوری دنیا میں ان کے ہزاروں شاگرد آج بھی درس و تدریس اور مختلف پہلوؤں سے دین اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں،یہ مولانا کا وہ صدقہ جاریہ ہے جو اس وقت تکجاری رہے گا جب تک مدراس اسلامیہ کا وجود قائم ہے،اللہ انھیں تاقیامت قائم و دائم رکھے۔
مولانا اچھے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ نظم و انصرام میں بھی یکتا تھے۔انھوں نے مظاہر العلوم کے ناظم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے تمام نشیب و فراز کے باوجود اس کے نظم و انصرام کو چست و درست رکھا۔انھیں طلبہ کے مسائل سے بڑی دل چسپی تھی اور ان کو حل کرنے کا ہنر جانتے تھے،مولانا کا ظاہر جس قدر پاکیزہ و روشن تھا،اس سے زیادہ ان کا باطن روشن و پاکیزہ تھااور تقویٰ ان کے ارد گرد طواف کرتا نظر آتا تھا۔ان کے شب و روز کے معمولات ایک سچے مومن کی زندگی کا آئینہ دار تھے۔کہاجاتا سکتا ہے کہ کسی شخص کواگر کسی کو ایک اچھے معلم،ایک مشفق استاذ،ایک محدث عصر اور ایک فقیہ الزماں کو کسی ایک شخصیت میں دیکھنا ہو تو حضرت مولانا کی شخصیت میں دیکھ سکتا ہے۔
مولانا کے چھوٹے بھائی حضرت مولانامفتی محمد صالح صاحب دامت برکاتہم،جو اس وقت نائب ناظم تھے،امید ہے کہ اب بڑے بھائی کی جگہ لیں گے اور ناظم اعلیٰ بن جائیں گے،ہمارے جامعۃ الفیصل تاج پور اس سیمنار میں تشریف لاچکے ہیں جو استاذ محترم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات کے موضوع پر رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔مفتی صاحب کی شرکت سے ہمیں تو جو مسرت حاصل ہوئی تھی وہ ناقابل بیان ہے ہی مگر حضرت نے بھی جامعہ کے تعلیمی و رتربیتی نظام پر اطمینان کا اظہار فرمایا تھا۔
سادگی کے متعلق حدیث میں وارد ہوا ہے کہ وہ مومن کا شیوہ ہے۔حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب ؒ اس کی جیتی جاگتی تصویر تھے،مولانا اخلاق عالیہ اور بلند کردارو شخصیت کے مالک تھے۔اسلام کوجو اوصاف مطلوب ہیں وہ حضرت مولانا میں بدرجہ اتم پائے جاتے تھے۔ان کی گفتگو،ان کا رہن،سہن،ان کا چلنا پھرنا،ان کی نشست و برخاست اور آداب و اخلاق سب اسلام کے آئینہ دار تھے۔
مولانا سے یاد گار ملاقات ہمارے لیے ایک سرمایہ ہے،ان کا انداز تکلم،حسن گفتگو آج بھی ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔یہ میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ اپنے عنفوان شباب سے اب تک مدرسہ مظاہر العلوم کے شیوخ اور کبار اساتذہ سے مجھے ملاقات و استفادہ کا شرف حاصل رہا۔شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ؒ سے مسلسلاۃ الحدیث کا درس لیا اور اجازت و سند حاصل کی۔شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب پالن پوری ؒ،شیخ الحدیث مولانامحمد طلحہ صاحب ؒ،مفتی مظفر حسین صاحب ؒ،مولانا اسعد اللہ صاحب ؒ ناظم مظاہر العلوم ؒ،مولانا محمد شاہد حسینی ؒ اور مولانا سید محمد عاقل صاحب ؒناظم اعلیٰ کی مجالس خیر میں الحمد للہ میری شرکت رہی ہے۔
حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب 15/اکتوبر1937کو پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد کانام الحاج مولاناحکیم محمد ایوبؒ ہے۔آپ کا گھرانہ نیکی و تقویٰ کا مخزن تھا۔آپ کی تعلیم و تربیت سہارن پور میں ہی ہوئی۔سب سے پہلے آپ نے قرآن مجید حفظ کیا اور اس کے بعد مدرسہ مظاہر العلوم کے نصاب سے استفادہ کرتے ہوئے 1380ھ میں سند فراغت حاصل کی۔فراغت کے معاً بعد ہی مدرسہ کی خدمت پر مامور کردیے گئے اور تادم آخر مدرسہ کی خدمت کرتے رہے۔آپ کی شخصیت کی تعمیر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ کا بڑااہم کردار ہے۔آپ ان کی خدمت میں حاضر رہتے،ان سے روحانی و علمی استفادہ کرتے،ان کے مضامین نقل کرنے میں ان کی معاونت بھی فرماتے۔آپ نے حضرت شیخ کے نقش قدم کی بھرپور پیروی کی،ایک خانقاہ تعمیر کرائی اور اس میں دلوں کو مجلّیٰ ومصفیٰ کرنے کا اہتمام کیا۔اس طرح آپ کو حضرت شیخ کا سچا جانشین کہا جاسکتا ہے۔
تدریس و تربیت کے ساتھ ساتھ آپ نے اہم تصنیفی امور انجام دیے ان میں الحل المفہم کاحاشیہ،الکوکب الدری کامقدمہ، الفیض السمائی کاحاشیہ، نیز ملفوظات حضرت شیخ وغیرہ آپ کی قلمی وعلمی یادگارہیں لیکن علمی دنیامیں آپ کی بے نظیرعالمانہ تالیف ”الدرالمنضود“ جو ابوداؤد شریف کی شرح نے آپ کو چار دانگ عالم میں شہرت عطا کی۔
موصوف کے پسماندگان میں ان کے ہزاروں شاگردوں کے علاوہ ان کے چھ بیٹے اور بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ہم ملت اکیڈمی اور جامعۃ الفیصل کی جانب سے ان کے پسماندگان کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحو م کی مغفرت فرمائے،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے نیز حضرت مفتی صاحب کو ان کا نعم البدل بنائے۔ آمین